وزیراعظم کا خوش آئند دورہ جی ایچ کیو

September 01, 2018

یہ عہدِ حاضرکی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی ملک کی مضبوطی اس کے معاشی استحکام، ناقابلِ تسخیر دفاع اور ریاستی اداروں کی مکمل ہم آہنگی میں مضمر ہے۔ ریاستی اداروں کی منظم و مضبوط یکجہتی اس لئے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ معاشی استحکام اور ناقابل تسخیر دفاع انہی کی وضع کردہ پالیسیوں کا ثمرہوتا ہے۔ اسے پاکستان کی خوش بختی سے ہی تعبیرکیاجائے گاکہ اس وقت جب ملک بے شمار اندرونی و بیرونی چیلنجوں سے نبردآزماہے، ہمارے ادارے یکسوہی نہیں بلکہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے ایک دوسرے کے دست وبازوبنے ہوئے ہیں۔ اس امر کا بھرپورمظاہرہ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کے دورۂ جی ایچ کیو کے موقع پر دیکھنے کو ملا۔ وزیراعظم نے پاک فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیت، آپریشنل تیاریوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ قوم کی حمایت اور یکجا قومی سوچ کے ذریعے ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجوں سے کامیابی سے عہدہ برآ ہوں گے۔ حکومت پاک فوج کی صلاحیت اور استعداد کارکوبرقرار رکھنے کے لئے تمام تر وسائل فراہم کرے گی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آٹھ گھنٹے طویل بریفنگ میں وزیراعظم اور ان کے وفد کو سلامتی کی صورت حال، خطرات اورردعمل کے بارے میں بتایاگیا۔ آپریشن ردالفساد نیز کراچی اور بلوچستان میں امن و امان کے حوالے سے تازہ ترین حالات سے آگاہی فراہم کی گئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ترقی پاکستان کا مقدر ہے اور ان شاء اللہ ہم مثبت اندازمیں آگے بڑھتے ہوئے اقوام عالم میں بلندمقام حاصل کریں گے۔ آرمی چیف نے انہیں یقین دلایا کہ پاک فوج ہرقیمت پرمادرِ وطن کے لئے قوم کی توقعات پرپورا اترے گی۔ دریں اثنا وزیراطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا کہ جی ایچ کیو کی بریفنگ میں دل کھول کر رکھ دیئے گئے۔ اس بات کو بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ ماضی میں سول ملٹری تعلقات اطمینان بخش نہ رہے جس کے باعث پاکستان کومارشل لا کے ادواربھی دیکھنا پڑے۔ بہرکیف یہ ایک طویل بحث ہے اور اس وقت بے موقع اوربے فائدہ بھی، یہ اب ماضی کا حصہ ہے اور اسے دفن کرکے آگے بڑھنا ہی ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ جی ایچ کیو میں ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کی خوشگوارماحول میں ملاقات اور طویل بریفنگ بلاشبہ نیک شگون سے کم نہیں۔ ہر دو قیادتیں اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ تیزی سے تبدیل ہوتی دنیا میں اپنی ترجیحات کا تعین کیسے کرنا ہے اور اپنی ضروریات کے حصول کوکیونکر یقینی بنانا ہے۔ جنرل ہیڈکوارٹرز میں ہونے والی اس ملاقات میں یقیناً پاک چین اقتصادی راہداری، بھارت کی بلوچستان میں کارستانیاں، اندرون ملک سکیورٹی معاملات، افغانستان کی ابتر صورت حال اور امریکہ سے تعلقات بھی زیربحث آئے ہوں گے اور ان معاملات کے بارے میں حکمت عملی پربھی بات ہوئی ہوگی۔ امید ہے کہ اس سلسلے میں اہم فیصلے بھی ہوئے ہوں گے۔ اس ملاقات کے حوالے سے خوش کن امر یہ ہے کہ بقول فواد چوہدری دل کھول کررکھ دیئے۔ دراصل پاکستان کوضرورت بھی اسی امرکی ہے کہ ہرجانب سے حقائق بیانی سے کام لیاجائے۔ غلط فہمیاں تبھی پیدا ہوتی ہیں جب بدگمانی راہ پالے۔ اس کابہترین حل یہ ہے کہ کھل کر بات چیت کی جائے جس سے غلط فہمیاں جڑ سے ختم ہو جاتی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت ہی نہیں تمام اہم اداروں کو اب یہی رویہ اختیارکرنا ہوگا بلکہ بہترتو یہ ہے کہ گفت و شنید کے عمل کوادارہ جاتی سطح تک لے جایاجائے تاکہ باہمی غلط فہمیوں کی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔ ملکی معاملات پر ادارے ایک دوسرے سے کھل کر بات چیت کریں گے تو نہ صرف معاملات بخوبی حل ہوں گے بلکہ ملک کو آگے بڑھانے کے لئے بہتر مشورے بھی ملیں گے۔ امید کی جانی چاہئے کہ حکومت اور دیگرریاستی ادارے آئین کے تحت کام کرتے ہوئے نہ صرف ملک دشمن عناصرکے استیصال کے لئے متحد ہوں گے بلکہ پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گام زن کرنے اور عالمی سطح پر اہم اور نمایاں مقام دلانے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔