پُرعزم یوم دفاع!

September 06, 2018

آج پاکستانی قوم مادر وطن پر جانیں نچھاور کرنے والے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اس عزم کے ساتھ ’’یوم دفاع و یوم شہدا‘‘ منارہی ہے کہ تمام درپیش چیلنجوں پر قابو پاکر اقوام عالم کی صف میں نمایاں مقام حاصل کرے گی۔ اس بار یوم دفاع اس کیفیت میں منایا جارہا ہے کہ الیکشن 2018ء کا عمل، جو 25جولائی کو پولنگ سے شروع ہوا، 4ستمبر کو نئے صدر مملکت کے انتخاب سے مکمل ہوگیا ہے اور جناب عارف علوی ان شاءاللہ 9ستمبر کو ملک کے 13ویں صدر کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ یوں ملک میں وہ جمہوری روایات مستحکم ہوتی نظر آرہی ہیں جن کے استحکام میں عام شہریوں کی امنگوں کے ساتھ ساتھ مسلح افواج کے ان افسروں اور جوانوں کی قربانیوں کا بھی بڑا دخل ہے جنہوں نے اپنی جانیں نچھاور کرکے نہ صرف وطن عزیز کی بیرونی سرحدوں کا دفاع کیا بلکہ اندرون ملک دہشت گردی کا جال بچھانے والے بیرونی ایجنٹوں کی سازشوں کو بھی خاک میں ملادیا۔ الیکشن 2018ء کو سبوتاژ کرنا بھی ملک دشمن عناصر کے ایجنڈے کا ایک حصہ تھا مگر قوم اور اس کی فوج کے عزم نے بیرونی قوتوں کو ناکام بنادیا اور آج ملک جمہوریت کی راہ پر نہ صرف مضبوطی سے قدم بڑھا رہا ہے بلکہ ان چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے بھی پوری طرح تیار ہے جن کا مقصد پاکستان کو دفاعی، سیاسی، معاشی اور سماجی میدانوں میں کمزور ترین سطح پر پہنچانا رہا ہے۔ آج 6؍ستمبر کو یوم دفاع اور یوم شہدا کے موقع پر جہاں ملک بھر میں منعقدہ عوامی تقریبات کے ذریعے دفاع وطن کیلئے اپنی جانوں کی قربانیاں دینے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے وہاں تمام فارمیشن آفیسرز اپنے اپنے علاقوں میں واقع شہدا کے گھروں میں جاکر ان کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کررہے ہیں۔ جبکہ آرمی چیف کی سرکردگی میں جنرل ہیڈ کوارٹر کی ’’یادگار شہدا‘‘ پر ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں شہادت کے رتبے پر فائز ہونے والے سینئر افسروں کے خاندانوں کے علاوہ سیاسی رہنمائوں کے خاندان بھی شریک ہونگے۔ اس سے دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ وطن عزیز کی سیاسی اور عسکری قیادتیں اپنے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے میں ہی نہیں بلکہ تمام معاملات میں ایک ہیں۔ اس بار یوم دفاع جن حالات میں منایا جارہا ہے اس میں ہر سطح پر یہ ادراک اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ جس طرح ملکی سرحدوں کی حفاظت کیلئے عسکری سطح پر دفاع مستحکم تر کرنے کی ضرورت سے کسی مرحلے پر غافل نہیں رہا جاسکتا بالکل اسی طرح ملک کے داخلی و خارجی معاملات کے تمام پہلوئوں کا استحکام ضروری ہے اور وہ تمام کوتاہیاں دہشت گردی سے کم خطرہ ہرگز نہیں جن کے نتیجے میں ملک کے معاشی، سیاسی، سماجی اور نظم و ضبط کے شعبے کمزور ہوتے ہیں۔ اس لئے ہمارے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو احتساب کا سامنا کرنے کی روایت قائم کرنی چاہئے اور ایسا طرزعمل اختیار کرنا چاہئے جس میں محاسبے سے گریز کا نہیں بلکہ احترام کا پہلو نمایاں ہو۔ اس باب میں یہ خبر امید افزا ہے کہ نندی پوری منصوبے میں 27ارب کرپشن کے ریفرنس میں بابر اعوان کا نام شامل ہونے پر وزیراعظم نے اپنے حال ہی میں مقرر کردہ مشیر برائے پارلیمانی امور سے استعفیٰ لے لیا۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت میں دائر نیب کے ریفرنس میں اس وقت کی یوسف رضا گیلانی کابینہ میں شامل بابر اعوان اور راجہ پرویز اشرف سمیت کئی نام شامل ہیں۔ اگرچہ بابر اعوان اس ریفرنس کو کئی وجوہ سے غلط قرار دیتے ہیں مگر انہوں نے استعفیٰ دے کر اچھی روایت قائم کی۔ اسی طرح ملک کو درپیش معاشی اور دیگر چیلنجوں کا تقاضا ہے کہ ان سے نمٹنے کیلئے جلد فیصلے کئے جائیں۔ اس باب میں ایک خبر یہ ہے کہ معاشی بحران سے نکلنے کیلئے ڈائسپور اور یورو بانڈز کے اجراء پر غور کیا جارہا ہے۔ ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ ان بانڈز سے فوری طور پر مختصر ریلیف کی امید کی جاسکتی ہے۔ وزیراعظم نے کئی اہم ٹاسک فورسز بنائی ہیں ان کا کام بھی تیزی سے آگے بڑھتا نظر آنا چاہئے اور ضرورت پڑنے پر مشکل فیصلوں سے بھی گریز نہیں کیا جانا چاہئے۔