جنگل کا قانون کیوں نہیں

November 27, 2012

جب کہیں افراتفری حد سے بڑھ جائے تو کہا جاتا ہے کہ وہاں جنگل کا قانون آگیا ہے مگر میرے خیال میں یہ مثال دینا بالکل غلط ہے۔ جنگل میں جو قانون ہمیشہ سے لاگو ہے اور ہمیشہ ہی رہے گا وہ اٹل اور ناقابل ترمیم ہے چاہے جنگل کے سارے جمہوریت پسند پارٹی لیڈر یا افہام و تفہیم کا پرچار کرنے والے جانور ایک عالیشان اتحاد بنالیں۔ دنیا کا کوئی آئین اور قانون جنگل کے قانون کا مقابلہ نہیں کرسکتا یعنی یہ ناممکن ہے کہ جنگل میں کوئی بندر جنگل کا بادشاہ بن جائے یا گِد اور چیل کوے شکار کریں اور شیر آکر کھائے یا اپنے کسی اکاؤنٹ میں یا غار میں سارا گوشت فرج میں رکھ لے جنگل میں کوئی جانور اپنی جائز ضرورت اور حق سے زیادہ شکار نہیں کرتا کسی نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ کسی بھی ملک کے شیر نے چاہے وہ افریقہ میں ہو یا برازیل میں ایک دن میں 10 ہرن شکار کرلئے اور اٹھا کر اپنے بچوں کے لئے لے گیا۔ ہر شیر کو روز اپنی پیٹ کی بھوک مٹانے کو ایک شکار چاہئے اور جب اس کا پیٹ بھر جاتا ہے تو وہ باقی سب دوسروں کے لئے چھوڑ کر چل دیتا ہے یعنی جنگل میں ذخیرہ اندوزی نہیں کی جاتی۔ اسی قانون کے مطابق ریچھ گرمیوں میں زیادہ خوراک کھاتا ہے اور چربی چڑھا لیتا ہے اور پھر سردیوں کے مہینوں میں لمبی تان کر مہینوں کے لئے سوجاتا ہے اور وہ چربی کام آتی ہے۔ تو جنگل کے قانون کے تحت کوئی کسی دوسرے کا حق نہیں مارسکتا۔
یہ تو ایک عام جنگل میں ہوتا ہے مگر اس قانون کو کو اگر توڑ دیا جائے تو کیا صورت بنے گی فرض کریں بجائے شیر کے بندر کو بادشاہ بنادیا جائے اور سب سے بڑے شاہ بندر کو اختیار دے دیا جائے کہ وہ اپنی پارٹی کے سب سے وفادار بندروں کو استرے دے کر روانہ کردے کہ جاؤ بچو جس کا گلہ کاٹنا ہے کاٹو جس کی جیب بھاری نظر آئے لوٹ لو جہاں کسی نے شکار کرکے رکھا ہو ہڑپ کرلو یا قبضہ کرلو۔ اس جنگل کے شیر اور باقی طاقتور طبقے اپنے اپنے بلوں میں یا ہیڈ کواٹرز میں چھپ کر بیٹھے ہوں اور صرف شام کو پارٹی کرکے، کچھ تھوڑا سا ٹن ہوکر بندروں کو صرف گالیاں دیں اور جو بچا کچھا ملے کھاکر سو جائیں۔ تمام گد اور بھیڑیئے بندروں کے حلیف بن جائیں اور یوں ایک نیا نظام قائم ہوجائے۔
مشہور شاعر روڈ یارڈ کپلنگ (kipling) جس کا انتقال 1936 میں ہوگیا تھا جنگل کے قانون پر مشہور زمانہ نظم لکھی ہے اور کپلنگ نے بھیڑے پر فوکس کیا ہے اور اس بھیڑے کی ایک پارٹی یا تنظیم کا بھی ذکر کیاہے جسے کپلنگ The Wolf & his pack کہتا ہے اس pack کے قانون کی اہم شقیں، یہ ہیں کہ بھیڑیا اپنی بھوک کیلئے شکار کرسکتا ہے مگر کوئی اس شکار کے بچے ہوئے حصے اپنے نماز یا گھر یا بینک میں نہیں لے جاسکتا۔ ایک اور شق ہے کہ اپنی ضرورت کے لئے تو شکار جائز ہے مگر تفریح کے لئے نہیں۔ ایک ضروری شق ہے کہ جنگل کے خداؤں (lords) کے ساتھ بھیڑیئے کو پنگا نہیں لینا یہ لارڈ ز شیر، تیندوا اور ریچھ ہیں اور یہ کہ خاموش ہاتھی کو تنگ نہ کرنا یا گھر میں آرام کرتے جنگلی سور کا مذاق نہیں اڑانا۔ جنگل کے قانون کی جو معنی ڈکشنری ڈاٹ کام کی ویب سائٹ پر دیئے ہیں وہ یوں ہیں :
" A system or mode of action in which the strongest survive, presumably as animals in nature or as human beings whose activity is not regulated by the laws of ethics of civilisation".
مشہور زمانہ Oxford کی ڈکشنری میں یہ معنی لکھے گئے ہیں:
"The principle that those who are strong and apply ruthless self-interest will be most successful".
ان سارے حوالوں اور تذکرے کے بعد اپنے ملک عزیز میں جو قانون اور قانون پر عمل کروانے والے لوگ براجمان ہیں ان کا جائزہ لیں اور جنگل کے قانون سے موازنہ کریں تو نظر آئے گا کہ نہ تو یہاں کوئی انسانوں کا قانون ہے اور نہ ہی جنگل کا ۔ اگر اس ملک کو جنگل سمجھیں تو پھر یہاں صرف بندروں کا راج نظر آئے گا سارے مشیر اور ہاتھی چھپ کر جان بچائے بیٹھے ہیں کیونکہ ہر بندر کے ہاتھ میں استرا ے اور بے شمار گد اور چیلیں ہر ایک کی بوٹیاں نوچنے کے لئے تیار ہیں۔ مگر اس خیالاتی جنگل میں وہاں کا قانون بھی پوری طرح لاگو نہیں جیسا کپلنگ نے بیان کیا ہے یعنی بھیڑیئے اور ان کے پیک ہر شیر، تیندوے اور ریچھ سے پنگے لے رہے ہیں ہر خاموش ہاتھی کو تنگ کررہے ہیں اور یہاں تک کہ جنگلی سور کو مذاق اڑا کر دعوت دے رہے ہیں کہ وہ جوابی حملے کرے۔
ان حالات میں اکثر دل بیٹھنے لگتا ہے کہ یہ سب کہاں جاکر رگے گا اور کیا کوئی روکنے والاہے بھی یا نہیں۔ کیا ملک میں اچھے لوگ بالکل ناپید ہوگئے ہیں یا سب چوروں کے ٹولوں میں شامل ہوگئے ہیں اور سب بھیڑے گد چیلیں اور کوے مل کر لوٹ کھسوٹ یا نوچ کھوچ میں لگ گئے ہیں یہ سب کو معلوم ہے کہ نجی محفلوں میں اور ذرا غم غلط کرنے کی وارو کے گھونٹ لے کر سب جنگل کے حکمرانوں کو لاکھ لاکھ گالیاں دیتے ہیں مگر بڑے بڑوں میں ہمت نہیں کہ سامنے آکر کلمہ حق کہیں۔ سوائے بیان بازی اور لوگوں کو بیوقوت بنانے کے بڑے بڑے سورما لیڈر عملاً کچھ نہیں کرتے اور حالات کو اس ڈگر تک لاکھڑا کیا ہے کہ ابھی تک کسی نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ ملک لوٹنے اور ڈبو نے والوں کو روکا جائے اور ملک سے بھاگنے نہ دیا جائے ۔ کئی دفعہ نام بھی چھپ چکے اور عدالتوں سے سزائیں بھی ہوچکیں مگر کوئی ٹھوس قدم کسی نے نہیں اٹھایا۔ لگتا ہے سب ہمت ہار کر انتظار میں ہیں کہ کسی طرح جمہوریت کے 5سال پورے ہوں اور پھر لوگ کچھ کریں یعنی سیاسی قیادت نے اپنا کردار ادا کرنے سے انکار کردیا ہے یا ناکامی تسلیم کرلی ہے۔
مگر ابھی اس جنگل میں وہ آگ نہیں لگی جو پورا جنگل ہی جلا ڈالتی ہے۔ کچھ لوگ بڑے جوش اور اعتماد کے ساتھ کوشش کررہے ہیں ۔ اچھے لوگوں کی کمی بھی نہیں۔ صرف ادارے اپنا رول اس طریقے سے ادا نہیں کررہے جو انہیں کرنا چاہئے۔ ہر ادارے کو ایک دوسرے کو مضبوط کرنا ضروری ہے ورنہ یہ فیصلہ عوام ہی کریں گے کہ یہاں جنگل کا قانون لاگو کیا جائے یا انسانوں کا۔ مگر یاد رکھیں جنگل کا قانون اٹل ہے اور ناقابل ترمیم اور جنگل میں بندر کبھی بادشاہ نہیں بن سکتا۔