اشیائے ضروریہ مہنگی

September 09, 2018

ادارہ شماریات پاکستان کی جاری کردہ ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق اختتام پذیر ہونے والے ہفتہ کے دوران مہنگائی کی شرح 18.2فیصد ہوگئی، ملک کے 17بڑے شہروں سے 53اشیاء کی قیمتوں کے تقابلی جائزہ میں 16اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ، 8اشیاء کی قیمتوں میں کمی جبکہ 29اشیاء کی قیمتوں میں استحکام رہا ہے، رواں ہفتہ کے دوران ٹماٹر، چکن (زندہ)، چائے کا کپ، مٹن، آٹا، لہسن، دالیں، سرخ مرچ، پیاز، دودھ، آگ جلانے والی لکڑی، گندم اور کھلے گھی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ یہ بات ناقابل تردید ہے کہ بھوک کوئی نظریہ یا عزم نہیں دیکھتی، اس کی ابتدا عاجزی و انکساری ہے تو انتہا بغاوت۔ چند برس قبل سینیٹ کے اجلاس میں رضا ربانی نے ملکی حالات کے پیش نظر حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ ’’ بھوک اور بیروزگاری پر قابو پایا جائے ورنہ غریب امیروں کو لوٹنا شروع کردیں گے پھر نہ ہم رہیں گے نہ اسمبلیاں‘‘۔دور کیوں جائیں دین مبین کی تعلیمات ہیں کہ حد اس وقت نافذ کی جاسکتی ہے جب غربا کو ان کا حق ادا نہ کیا جائے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے عہد میں قحط پڑنے پر چور کا ہاتھ کاٹنے کی سز ا معطل کردی تھی۔ مقصد یہ کہ جو حکومت اپنے حقوق ادا نہیں کرسکتی عوام سے بھی فرائض کی بجا آوری کے متعلق بازپرس نہیں کرسکتی۔ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں حالیہ گرانی کا اثر کس پر پڑیگا؟ بلاشبہ ان پر جو خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، امرا کی تو خوراک تک زیادہ تر بیرون ملک سے آتی ہے اور یہی دوہرے معیار معاشروں میں انتشار کا باعث بنا کرتے ہیں۔ عوام کیلئے تو پہلے ہی جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہورہا ہے ایسے میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ’’مرے پہ سو درے‘‘ کے مترادف ہے۔ حکومت کو یہ امر کسی صورت فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ عوام نے اسے اپنی خوشحالی کیلئے مسند اقتدار تک پہنچایا ہے۔ اگر اسی طرح گیس، بجلی اور بنیادی ضروریات زندگی گراں تر ہوتی چلی گئیں تو حکومت کی مقبولیت کے گراف میں تغیر بعید از قیاس نہ ہوگا۔ حکومت کو چاہئے کہ عوامی ریلیف کو اپنی اولین ترجیح قرار دے جیسا کہ اس نے انتخابات کے دوران وعدہ کیا تھا۔