پیپلز پارٹی اور جمہوریت

November 29, 2012

کل تیس نومبر ہے اس دن پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی قائم ہوئی تھی۔ اب اس پارٹی کو قائم ہوئے چار دہائیوں سے زائد عرصہ ہو چکا ہے مگر یہ اب بھی اقتدار میں ہے۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بات کر رہا ہوں۔ اب تک کی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پیپلز پارٹی سے مقبول ترین جماعت کوئی نہیں بن سکی اور نہ ہی بھٹو جتنا مقبول ترین رہنما کوئی بن سکا ہے یہ وہ واحد جماعت ہے جس نے پاکستان کے پسے ہوئے طبقات کے افراد کو اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں تک پہنچایا۔ یہی وہ واحد جماعت ہے جس کے راستے ہمیشہ روکے گئے مگر اس مقبول ترین جماعت کے کارکنوں نے راستے کی ہر رکاوٹ کو عبور کیا۔ ہر پتھر کو ہٹایا اور ثابت کیا کہ دل کی دنیا کے دیوانوں کے سامنے آگ کے دریا کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔
تیس نومبر 1967ء کو پاکستان کے ذہین ترین سیاستدان نے ایک ایسی جماعت قائم کی جو دنوں میں دلوں میں گھر کر گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے دل سے سیاست شروع کی اور پھر اس کی محبت کو پورے جسم میں اتار دیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی ہر دلعزیز ہوتی گئی بھٹو جدھر جاتے عوام کا سمندر ان کا استقبال کرتا، بلاشبہ بھٹو سے بڑے جلسے پاکستان کی تاریخ میں کوئی نہیں کر سکا۔ بھٹو نے جلسوں میں شرکت کیلئے نہ پیسے استعمال کئے نہ ہی بسیں فراہم کیں۔ بھٹو کے جلسوں میں لوگ خودآتے تھے طالب علم چندہ جمع کر کے ان جلسوں کی زینت بنتے تھے شاید اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ بھٹو نے غریب لوگوں کو زبان دی۔ اس سے پہلے پاکستان کے عوام کی اکثریت گونگی تھی۔ پیپلز پارٹی نے ہر طبقے کو جگہ مہیا کی۔ اس پارٹی میں مٹی سے جڑے ہوئے ہاری اور کسان تھے اس میں شاعر اور دانشور بھی تھے اس میں مزدور بھی تھے اور صحافی بھی۔ طلبہ اس کی جان تھے۔ یہ ایوبی مارشل لاء کا آخری زمانہ تھا جب گلی گلی میں بھٹو تھا جب ہر چوراہے، ہر اسٹیشن پر صرف بھٹو زیر بحث تھا۔ بس مقبول ہوتے ہوئے بھٹو کے سامنے مارشل لاء کی ساری طاقت ماند پڑنے لگی عوامی قوت کے سامنے آمرانہ ہتھکنڈے دم توڑ گئے اور ایوب خان اقتدار سے الگ ہوگئے۔
1970 کے انتخابات میں پورا مغربی پاکستان بھٹو کا ہمنوا تھا اس نے اگر کھمبے کو ٹکٹ دیا تو وہ بھی جیت گیا پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو اس نے نئے پاکستان کی تعمیر شروع کی۔ بھٹو کا عرصہ اقتدار ایک طرف اور باقی پورا عرصہ اقتدار ترازو کی دوسری جانب رکھا جائے تو بھٹو کا پلڑا بھاری نظر آئیگا۔ بھٹو نے پاکستان کیلئے وہ کیا جو کوئی اور نہ کر سکا۔ اس کے دور میں جتنے منصوبے بنے کسی اور دور میں نہ بن سکے۔ اس نے جتنے ادارے بنائے کوئی اور نہ بنا سکا۔ پاسپورٹ اور ایٹم بم تو عام سی مثالیں ہیں بھٹو پاکستان کیلئے جو سوچ رہا تھا اس سے دنیا ڈر گئی اور جس سے دنیا خائف ہو جائے اس کیلئے سازشوں کا جال بنا جاتا ہے۔ بس بھٹو کے جسم کو عدالتی قتل کے ذریعے ختم کر دیا گیا مگر حیرت ہے بھٹو عوام کے دلوں میں قائم رہا۔ ضیاء الحق نے اپنے ظالمانہ دور میں جبر کی انتہا کر دی تھی کہ کسی طور پر پیپلز پارٹی کا وجود ختم کر دیا جائے لیکن اس کی یہ خواہش اس وقت حسرت میں بدل گئی جب بھٹو کی محبت میں لوگوں نے موت کو گلے لگانا شروع کر دیا جب کوڑوں کے سامنے جسموں نے جھکنے سے انکار کر دیا جب قلعے اور کال کوٹھڑیاں ذہنوں کو بدلنے میں ناکام ہوگئے۔ ضیاء الحق ہار گیا لوگ جیت گئے لوگ بھٹو کی بیٹی کے ساتھ کھڑے ہوگئے کہ
مت پوچھ کہ میں ضبط کی کس راہ سے گزرا
یہ دیکھ کر تجھ پر کوئی الزام نہ آیا
واقعی پیپلز پارٹی کی محبت میں جیالے جاں سے گزر گئے مگر انہوں نے اپنی سچی سیاسی لگن پر کوئی حرف نہیں آنے دیا۔ بھٹو کی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو اور پھر بیٹی بینظیر بھٹو شہید نے بھٹو کی محبت میں گرفتار لوگوں کے ساتھ ضیاء الحق کے کٹھن مارشل لا کا مقابلہ کیا۔ جن لوگوں نے ضیاء الحق کے اندھے مارشل لا کو دیکھا ہوا ہے ان کے سامنے پرویز مشرف کی فوجی حکومت تو ایسے ہی تھی جیسے جہاز کا آرام دہ سفر ہو کیونکہ پرویز مشرف کے دور میں نہ کسی کو پھانسی نصیب ہوئی نہ کوئی کوڑے کھا سکا نہ سختیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ فقط ایک چھوٹی سی ہجرت کرنا پڑی تھی۔
بینظیر بھٹو شہید نے اپنی سیاست کے طفیل ضیاء الحق کو مفتوح بنا کے رکھ دیا تھا جب ضیاء الحق کی موت کے بعد آمرانہ قوتوں نے دیکھا کہ پیپلز پارٹی تو بیس بائیس برس بعد بھی زندہ ہے تو انہوں نے پیپلز پارٹی کے مخالف سیاستدانوں میں نہ صرف رقوم تقسیم کیں بلکہ اس کا راستہ روکنے کیلئے لمبے چوڑے اتحاد بنا ڈالے۔ ان اتحادوں نے دولت اور دھاندلی کے بل بوتے پر الیکشن چرا لئے۔ ایک الیکشن تو چرا لیا اگلے میں پھر پیپلز پارٹی جیت گئی۔ پھر اس کے بعد جو الیکشن ہوا پیپلز پارٹی کو جی بھر کر ہروایا گیا مگر پیپلز پارٹی کو ہار کہاں؟ وہ 2002ء میں پھر بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آ گئی۔ پرویزمشرف نے پیپلز پارٹی توڑ کر اپنا اقتدار جوڑ لیا اور عوام کے روبرو مخاصمت میں کھڑا ہوگیا اس نے عدلیہ کو کچلنے کی کوشش کی اور خود کچلا گیا۔
2008ء کے انتخابات محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ہوئے۔ پیپلز پارٹی جیت گئی اور اقتدار میں آگئی۔ پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جسے آمرانہ قوتیں پچھلے چالیس برس سے ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں مگر وہ زندہ ہے یہ وہ جماعت ہے جس کی نمائندگی پاکستان کے تمام صوبوں کے علاوہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری ملک کے صدر ہیں اور بھٹو کا نواسہ بلاول بھٹو زرداری پارٹی کا چیئرمین ہے۔ اب پیپلز پارٹی کے حالیہ اقتدار کا پانچواں سال ہے۔ آصف علی زرداری کی حکمت عملیوں کے سامنے نجومیوں کی تمام پیشن گوئیاں ہار چکی ہیں اب ایک عام سا کارکن وزیراعظم ہے اگر جمہوریت کے آئینے میں دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی ہی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس نے تمام مارشل لاؤں کا مقابلہ کیا جس کی تمام جدوجہد جمہوریت اور عوام کیلئے ہے جمہوریت کیلئے جتنی قربانیاں پیپلز پارٹی نے دی ہیں یہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئیں۔ پیپلز پارٹی کبھی آمریت کی گود میں نہیں بیٹھی۔ کل تیس نومبر کو بھٹو کی پیپلز پارٹی جمہوریت کیلئے نئے عہدوپیماں باندھے گی۔ پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین جمہوریت کیلئے کوئی عہد ساز پیغام ضرور دیں گے۔
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے