کلثوم اور مریم، نواز شریف کی قوت

September 19, 2018

میاں بیوی کا رشتہ زندگی کا سب سے اہم رشتہ ہوتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم آہنگی ہونے کے باعث فولاد کی طرح مضبوط ہوجاتا ہے اور اولاد کے بعد شوہر اپنی بیوی کو ایک رشتے سے نہیں بلکہ کئی رشتوں سے پہچانتا ہے، دونوں عمر بھر کیلئے ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ ایسے میں ایک جیون ساتھی اگر ساتھ چھوڑ جائے تو انسان بکھر کر رہ جاتا ہے۔ کہتے ہیں بری خبر سے زیادہ برا اس خبر کا انتظار ہوتا ہے۔ یہی کچھ اس وقت ہوا جب 11 ستمبر کی سہ پہر نواز شریف اور مریم نواز کو ان کے سیل میں یہ خبر سنائی گئی کہ کلثوم نواز اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔ جب سیل میں باپ بیٹی یکجا ہوئے تو ایک دوسرے سے گلے مل کر روئے، آج دونوں کے ضبط کے بندھن ٹوٹ چکے تھے اور وہ طوفان جو کئی دنوں سے تھما تھا، وہ آنسوئوں کے رستے بہہ گیا۔ آج جیل میں انہیں دلاسہ دینے اور چپ کرانے والا کوئی نہ تھا۔ فولادی قوت کے باپ بیٹی جنہیں مخالفین اب تک توڑنے میں کامیاب نہ ہوسکے تھے، اس صدمے سے تھوڑی دیر کیلئے ٹوٹ چکے تھے۔ اس موقع پر نواز شریف کی اخبار میں شائع تصویر جس میں وہ ایک ٹوٹے اور لٹے شخص کی طرح کھڑے ہیں، نے ہر کسی کے دل کو دکھی کردیا۔ میڈیا پر دونوں کی کلثوم نواز سے آخری ملاقات کی وہ ویڈیو جس نے بھی دیکھی، اپنے آنسو ضبط نہیں کرسکا جس میں نواز شریف اپنی گرفتاری دینے کیلئے پاکستان آنے سے قبل اسپتال میں اپنی بیٹی مریم کے ہمراہ کلثوم نواز کا آخری بار دیدار کرتے ہوئے اپنی شریک حیات کو پکار رہے ہیں۔ ’’آنکھیں کھولوکلثوم ، میں تمہارا بائوجی ہوں۔‘‘ اس پر بھی جب کلثوم نواز نے آنکھیں نہ کھولیں تو مریم اپنی ماں سے کہہ رہی ہیں کہ ’’امی آنکھیں کھولیں، ابو آئے ہیں۔‘‘ مگر شاید کلثوم نواز تک اُن کی آواز نہ پہنچ سکی۔ بالآخر دونوں باپ بیٹی بستر مرگ پر کلثوم نواز پر الوداعی نظر ڈالتے ہوئے قانون کی بالادستی قائم کرنے کیلئے گرفتاری دینے پاکستان روانہ ہوئے۔ شاید انہیں معلوم تھا کہ اب کبھی کلثوم نواز سے ملاقات نہ ہوسکے گی اور کچھ ایسا ہی ہوا۔

کلثوم نواز کی وفات کے بعد جب شہباز شریف، نواز شریف سے ملنے اڈیالہ پہنچے تو سیل میں دونوں باپ بیٹی کو فرش پر بیٹھے روتے پایا۔ مریم نے چچا کے گلے لگ کر رونا شروع کردیا۔ چچا بھتیجی کی وائرل ہونے والی اس تصویر نے ہر دیکھنے والے کو دکھی کردیا۔ اس موقع پر شہباز شریف نے جب نواز شریف سے پیرول پر رہائی کیلئے کہا تو نواز شریف نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ جو نقصان ہونا تھا، وہ ہوچکا، اللہ کو یہی منظور تھا۔ مریم نواز نے بھی باپ کی تائید کی۔ بعد ازاں شہباز شریف نے دونوں کی پیرول پر رہائی کی درخواست اپنی طرف سے دی اور زبردستی انہیں جاتی امرالے گئے۔

کلثوم نواز کی موت سے کچھ دن قبل اڈیالہ جیل میں میری نواز شریف سے ملاقات کے موقع پر مجھ پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ نواز شریف اور مریم ہفتے میں ایک بار کلثوم نواز سے بات کرتے تھے۔ جیل مینوئیل کے مطابق ہر قیدی کو ہفتے میں 20 منٹ فون کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ کیونکہ جیل سے بیرون ملک کال نہیں کی جاسکتی، اس لئے حسن نواز کے پاکستانی نمبر پر کال کی جاتی تھی۔ کلثوم نواز کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اُن کے شوہر اور بیٹی جیل میں ہیں۔ وہ اکثر شکایت کرتی تھیں کہ یہ دونوں اُن کے پاس کیوں نہیں آرہے؟جس پر انہیں تسلی دی جاتی تھی کہ دونوں کی مصروفیت کے باعث ابھی یہ ممکن نہیں اور وہ بہت جلد ان سے ملنے آئیں گے۔ مرنے سے ایک دن قبل جب باپ بیٹی کی بات کلثوم نواز سے ہوئی تو اس وقت بھی تو کلثوم نواز نے دھیمی آواز میں ان سے کہا کہ آخر کب وہ ان سے ملنے آئیں گے۔

آمریت کے خلاف جمہوریت کا علم اٹھانے والی کلثوم نواز کی نماز جنازہ گزشتہ روز جاتی امرا میں ادا کی گئی اور مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں بھی جنازے میں شریک تھا۔ عوام کا وہاں ٹھاٹھیںمارتا سمندر تھا اور حد نگاہ عوام ہی عوام نظر آرہے تھے جو پاکستان کے ہر کونے سے آئے تھے جنہیں بسوں میں بھرکر نہیں لایا گیا تھا۔ میری وہاں کچھ ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی جو یورپ اور امریکہ سے خصوصی طور پر جنازے میں شرکت کیلئے آئے تھے۔ کلثوم نواز کے جنازے میں تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور دیگر بڑی جماعتوں کے رہنما بھی شریک تھے۔ ہر آنکھ اشکبار تھی۔ آج امام احمد بن حنبل کا یہ قول ثابت ہورہا تھا کہ ’’ہمارے حق پر ہونے کی گواہی ہمارے جنازے دیں گے۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ کلثوم نواز کے جنازے نے مسلم لیگ (ن) کو ایک نئی طاقت بخشی ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ دلوں پر حکمرانی ایوانوں کی حکمرانی سے زیادہ بہتر ہے۔ اگلی صف میں ہونے کی وجہ سے میں نواز شریف کو قریب سے دیکھ سکتا تھا جو انتہائی دکھی نظر آرہے تھے اور انہوں نے بڑی مشکل سے اپنے آنسو ضبط کررکھے تھے مگر جیسے ہی انہوں نے اپنی 47 سالہ رفاقت کی ساتھی کلثوم نواز کو لحد میں اتارا تو ایک بار پھر آنسوئوں کا یہ بند ٹوٹ گیا۔یہ امر خوش آئند ہے کہ تمام تر اختلافات کے باوجود آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے سوئم کے بعد جاتی امراجاکر کلثوم نواز کی وفات پر نواز شریف سے تعزیت کا اظہار کیا اور مریم نواز کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا جبکہ چوہدری شجاعت اور مونس الٰہی نے بھی نواز شریف کے گھر جاکر ان سے تعزیت کی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ عمران خان بھی ماضی کے تمام اختلافات بھلاکر تعزیت کیلئے جاتی امرا جاتے۔ ان کے اس اقدام سے شریف فیملی کے دل میں ان کیلئے پیدا ہونے والی نفرتوں کو ختم کرنے میں مدد ملتی مگر انہوں نے یہ موقع ضائع کردیا۔

پیرول پر رہائی کے دن ختم ہونے کے بعد نواز شریف اپنی بوڑھی ماں سے ثابت قدم رہنے کی دعائیں لیتے ہوئے بیٹی کا ہاتھ تھامے پھر اڈیالہ جیل چلے گئے۔ نوازشریف اور مریم نواز آج جن آزمائشوں اور تکالیف سے گزر رہے ہیں، یہ پاکستان کی جمہوری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے مگر ان کی ہمت و بہادری نے یہ ثابت کردیا کہ سویلین بالادستی کیلئے جو قربانیاں انہوں نے دیں، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ان کی قید تنہائی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوچکا ہے جو کلثوم نواز کے انتقال کے بعد یقیناََ بہت کٹھن ہوگا اور شب و روز گزارنے مشکل ہوجائیں گے۔دونوں کو یہ کسک اور پچھتاوا زندگی بھر رہے گا کہ وہ بستر مرگ پر کلثوم نواز کو چھوڑ کر وطن واپس کیوں آئے جب کلثوم کو بائوجی کی اشد ضرورت تھی۔

نواز شریف اس لحاظ سے خوش نصیب ہیں کہ فیملی کی دو عورتوں نے ان کیلئے اہم کردار ادا کیا جو نواز شریف کی قوت تصور کی جاتی ہیں۔ ایک کلثوم نواز اور دوسری مریم نواز۔ جب پرویز مشرف نے نواز شریف کو پابند سلاسل کیا تو وہ عورت جس کا سیاست سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا تھا، حالات نے اسے اتنا طاقتور بنادیا کہ وہ شیرنی بن کر اپنے شوہر کے ساتھ زیادتیوں کے خلاف آمر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہوگئی۔ آج تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرارہی ہے۔ آج اسی کلثوم نواز کی بیٹی مریم اپنے باپ نواز شریف کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف اپنی ماں کی طرح ایک شیرنی بن کر کھڑی ہوگئی ہے اور باپ کی کمزوری کے بجائے اس کی طاقت بن گئی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب اس جدوجہد کے نتیجے میں نواز شریف اور مریم نواز اڈیالہ جیل سے سرخرو ہوکر نکلیں گے اور مریم اپنی ماں کی قبر پر یہ کہے گی کہ ’’امی میں نے آپ کے جمہوری مشن کی تکمیل کردی۔‘‘

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)