فریدا خاک نہ نِندیئے

September 20, 2018

قدرت کے کام دیکھئے ایک خاندان غزنی شہر کی چپقلشوں سے بددل ہو کر ہجرت کرتا ہے۔ 12ویں صدی میں کوٹھے وال، ملتان کے قریبی علاقے میں اس خاندان کے ہاں ایک ایسا بچہ جنم لیتا ہے جسے وقت گنج شکر اور زمانہ بابا کے لقب سے سرفراز کرتا ہے۔ پنجابی صوفی شاعری کے اولین ستارے نے کوٹھے وال سے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا اور فارسی، عربی اور دینیات کے بنیادی قواعد و ضوابط سے روشناسی حاصل کی، 18برس کی عمر میں ملتان میں مولانا منہاج الدین ترمذی کے مدرسے میں داخل ہوئے اور قرآن و فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ جب دل میں روشنی کے ذخیرے موجود ہوں تو انہیں دریافت کرنے والا مرشد بھی میسر آ جاتا ہے جو انسان کو اس کی حقیقت سے روشناس کراتا ہے۔ اسی مدرسے میں ان کی ملاقات خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ سے ہوئی تو فرید الدینؒ کو اپنے وجود میں ایک خاص روحانی کیفیت کا ادراک ہوا۔ ان کے درمیان گہرا روحانی تعلق استوار ہوا مگر خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ان کی شدید خواہش پر انہیں دلّی لے جانے پر راضی نہ ہوئے بلکہ ظاہری تعلیم کی تکمیل پر زور دیا۔ ملتان کے بعد فرید الدین نے قندھار میں تعلیم کی غرض سے پانچ سال قیام کیا پھر ایران، عراق، خراسان اور مکہ معظمہ کی زیارت کی۔ وہ ہر جگہ سے علم اور معرفت کے موتی اپنے دل کی جھولی میں جمع کرتے رہے۔ پھر دلّی کا سفر اختیار کیا اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کی خانقاہ کو اپنا مسکن بنا لیا۔ وہاں انہیں خواجہ قطب الدین بختیار کی صحبت کے علاوہ حضرت معین الدین چشتی ؒ کی زیارت کا بھی شرف حاصل ہوا اور ان دونوں بزرگوں نے ان کی روحانی صفات کو دیکھتے ہوئے انہیں دعا سے سرفراز کیا۔ اپنے مرشد کے حکم پر بابا فریدؒ نے ہانسی میں خانقاہ آباد کی۔ مرشد کے وصال کے بعد دوبارہ دلّی تشریف لے گئے تو انہیں چشتی سلسلے کا سربراہ تسلیم کر کے سجادگی سونپ دی گئی مگر وہ دلّی کی سیاسی منافرت کے ماحول سے دلبرداشتہ ہو کر سکون کی تلاش میں نکلے تو قدم اجودھن آ کر رُک گئے۔

جس طرح انسانوں کی سنی جاتی ہے، اسی طرح زمین کی بھی تمنائوں سے گود بھرتی ہے، اس کے ماتھے پر بھی ایسے ستارے ٹانکے جاتے ہیں جن کی چمک اُسے روشنی کا مرکز بنا دیتی ہے۔ اجودھن ایک غیر معروف جگہ، کسی حوالے سے کوئی خاص پہچان اس نام کے ساتھ منسلک نہ تھی۔ اس ویران اور سنسان علاقے کے بھاگ تب جاگے جب ایک ولی اللہ نے ریت کے ٹیلوں کے درمیان درختوں کے جھرمٹ تلے جھونپڑی بنا کر اسے اپنا مسکن بنایا۔ لوگ اس کی معرفت کی باتوں سے متاثر ہو کر اس کی طرف کھنچنے لگے، بستی آباد ہونے لگی اور روحانیت کی لہروں سے سرشار سرزمین پاکپتن کہلائی۔ ذرائع ابلاغ کا وجود نہیں تھا، ذرائع آمد و رفت بھی مفقود تھے۔ اس دور میں بابا فریدؒ کی عشق میں بھیگی ہوئی شاعری نے ہوا کے پروں پر بیٹھ کر ایک عالم کے دلوں تک رسائی حاصل کی۔

فرید الدین ؒکو بچپن سے ہی روحانیت کی دولت عطا کی گئی تھی اس لئے ان کی ذات سے منسوب کرامات کا آغاز بچپن سے ہی ہونا شروع ہو گیا تھا۔ ان سے منسوب پہلی کرامت جو صدیوں سے مائیں اپنے بچوں کو کہانی کی صورت میں سناتی رہی ہیں کچھ یوں ہے کہ فرید الدینؒ کی والدہ بہت نیک سیرت اور عبادت گزار خاتون تھیں اور اپنے بیٹے کو باقاعدگی سے نماز کا پابند کرنے کے لئے ان کے مصلّے کے نیچے شکر رکھ دیتی تھیں۔ ایک بار وہ بھول گئیں مگر بیٹے کو شکر مل گئی تو ان کی والدہ کو یقین ہو گیا کہ یہ کرامت ذاتِ حق کی جانب سے ہے۔ اسی طرح ایک دفعہ وہ کیچڑ والی سڑک پر پھسل کر گر پڑے اور سڑک کی مٹی ان کے منہ میں جا کر شکر میں بدل گئی۔ ایک اور روایت کے مطابق ایک دفعہ بابا فریدؒ کی ملاقات کچھ تاجروں سے ہوئی جو اونٹوں پر شکر لاد کر کہیں لے جا رہے تھے۔ بابا فریدؒ کے استفسار پر انہوں نے جھوٹ بولا کہ ان بوریوں میں نمک ہے۔ منزل پر جا کر تاجروں نے بوریوں کو کھولا تو ان میں شکر کی بجائے نمک بھرا ہوا تھا۔ وہ واپس لوٹے اور بابا فریدؒ کے سامنے گڑگڑائے اور اپنی خطا کی معافی مانگی جس کے بعد ان کا نمک پھر چینی میں بدل گیا۔ ان تمام خبروں کی وجہ سے فرید الدینؒ کو لوگ گنج شکر کے نام سے پکارنے لگے۔ اسی طرح کئی اور کرامتیں ہیں جن کا اس کالم میں بیان کرنا مشکل ہے تاہم اس بات میں دو رائے نہیں کہ بابا فریدؒ پیدائشی ولی تھے۔ انہوں نے پہلی بار عام لوگوں کی زبان میں روحانی اسرار بیان کئے، دیسی ماحول سے تشبیہات اور استعارے اخذ کئے۔ جو دِیا ان کے من میں جلتا تھا اس کی روشنی سے لوگوں کے دلوں کو منور کرنے کے لئے انہوں نے شاعری کو وسیلہ بنایا۔ ولی کے ساتھ ساتھ وہ ایک عالم بھی تھے جنہیں مختلف علوم ازبر تھے اور جن کا دل علم تخلیق کرتا تھا۔ تصوف اسرار کا علم ہے، اس کی کنجی مرشد کے ہاتھ ہوتی ہے۔ انسان طے شدہ قواعد و ضوابط سے بھٹک جائے تو نہ دین کا رہتا ہے نہ دنیا کا۔ یہ پل صراط ہے جسے فرید الدینؒ نے عبور کیا۔ انہوں نے اپنی زندگی کا آغاز شریعت کے اصولوں کے مطابق کیا اور پھر بتدریج طریقت، حقیقت اور معرفت کی طرف گامزن ہوئے کیوں کہ انہوں نے مختلف ملکوں اور علاقوں کی مسافرت اختیار کی تھی اور عام لوگوں سے مکالمہ کر کے ان کے مسائل سے آگاہی حاصل کی تھی اس لئے وہ انسانیت کی فلاح کی طرف بڑھنے لگے۔ انہیں ہر چہرے میں خدا نظر آتا تھا اس لئے ہر انسان کی تکریم ان کا ایمان بنتا گیا۔

فریدا خالق خلق میں، خلق دِسّے ربّ مانہہ

مندا کس نوں آکھئے جاں تِس بن کجھ نانہہ

ان کی شاعری میں ہمیں ویدانت، بدھ مت اور بھگتی تحریک کے اثرات نظر آتے ہیں مگر وہ رہبانیت کے قائل نہیں۔ خود انہوں نے تین شادیاں کیں۔ ان کا پیغام دنیا کی دوڑ میں بھاگنے والے انسان کو ذرا رُک کر دل کی بات سننے کی طرف راغب کرنا ہے کیوں کہ انسان جب دل کی بات سنتا ہے تو اپنے خدا کی طرف لوٹتا ہے۔ بابا فریدؒ کا مخلوق کی برابری کے قائل ہیں۔ وہ رنگ، نسل یا کسی اور تفریق کو نہیں مانتے۔ اگرچہ وہ اپنے کلام میں اسلامی تہذیب کی نمائندگی کرتے ہیں مگر انہوں نے جنگوں کی بجائے خدا سے محبت اور نبی ﷺ کی سیرت کی بات کی ہے۔ وہ اپنے ہم مذہبوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں نہ دیگر مذاہب کو برا بھلا کہتے ہیں۔ وہ مذہب کی بجائے اخلاقی قدروں اور عشق کی تبلیغ کرتے ہیں۔ ان کی بنیادی تعلیمات میں خدا سے محبت، ذہن اور دل کی پاکیزگی اور دنیاوی جاہ و جلال سے لاتعلقی شامل ہے۔ وہ زندگی کے اختصار، سفر کی طوالت اور وقت کی قلّت کا تذکرہ کرتے ہوئے انسان کو نیک عمل کی تبلیغ کرتے ہیں۔ ان کا بنیادی نکتہ آخرت کی زندگی ہے جس کے لئے اس دنیا میں نیک عمل کرنا ضروری ہے۔ ان کے مطابق سماجی اور اخلاقی خوبیاں تمام مذاہب کی میراث ہیں۔ بابا فریدؒ کسی سے نفرت نہیں کرتے تھے اس لئے ہر مذہب کے لوگ ان کے دَر پر آنے لگے۔ عوام میں ان کی یہ مقبولیت اجودھن کے قاضی کو برداشت نہ ہوئی۔ آخری دور میں انہیں مختلف حوالوں سے تنگ کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ظاہر پرستوں سے فاصلہ کرلیا اور عبادت کو اپنا وظیفہ بنا لیا۔ انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر انہوں نے اپنا رستہ تبدیل نہ کیا۔ آج صدیوں بعد بھی ان کا روضہ مبارک روحانیت کا مرکز ہے۔ وہاں مادی وجود کے لئے لنگر کا اہتمام ہے تو روح کی شادمانی کے لئے محفل سماع۔ ہر طبقۂ فکر کے لوگ وہاں حاضری دے کر روحانیت کی کرنوں سے اپنے دلوں کو منور کرتے ہیں، خدا کے سامنے سر جھکا کر انکساری اور حلیمی کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ روحانی مرکز لوگوں کو اپنے وجود میں موجود تکبّر اور انا کے بتوں کو پاش پاش کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ آئیے بابا فریدؒ کی شاعری اور زندگی سے روشنی کی چند کرنیں ہم بھی اپنی جھولی میں ڈالیں تا کہ ہمارا دل بھی جہالت کی سیاہی سے نجات حاصل کر سکے اور ہم دنیا کی بے ثباتی سے آگاہ ہو کر آخرت کو سنوارنے والے اعمال پر توجہ مرکوز کریں۔

فریدا خاک نہ نِندیئے خاکوں جیڈ نہ کو

جیوندیاں پیراں تلے مویاں اُپر ہو

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)