تاریخ کے نام پر بے بنیاد دعوے

September 28, 2018

ہر قسم کی علمی، تحقیقی اور اخلاقی حدود یا اقدار سے ماورا ہمارا سوشل میڈیا جھوٹ اور مبالغے کا ایسا ’’پرچارک‘‘ یا ذریعہ بن چکا ہے جسے سیاسی جماعتیں اپنے مخالفین کی کردار کشی، دانشور حضرات نفرت اور کنفیوژن پھیلانے، مذہبی عناصر فتوے دینے اور مذہبی اقلتیں اپنے مفادات کی آڑ میں جھوٹے دعوے کرنے کے لئے بے دریغ استعمال کررہی ہیں۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سوشل میڈیا مکمل طور پر جھوٹ کا پلندہ بن چکا ہے۔ اس میں نادر تحریریں اور مستند مواد بھی ملتا ہے لیکن اس کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ خدا جانے یہ صورت حال ہمیں کہاں لے جائے گی لیکن اس کا ایک پہلو بہرحال تشویشناک اور قابل غور ہے۔ ہماری نوجوان نسل کتاب، مطالعے اور تحقیق سے رشتے منقطع کر کے صرف سوشل میڈیا پر تکیہ کئے بیٹھی ہے اور سوشل میڈیا ہی ان کی معلومات اور ذہنی تربیت کا واحد ذریعہ بن چکا ہے۔ جھوٹ، نفرت، علاقائی و مذہبی تعصبات اور فرقہ واریت کے پرچار کے لئے لکھی گئی تحریریں پڑھ پڑھ کر ہماری نوجوان نسلوں کی سوچ کنفیوژن کا شکار ہورہی ہے۔ کل ہی مجھے فاروقی صاحب نے ایک ’’بلاگ‘‘ بھیجا ہے جس میں پاکستانی مسلمانوں پر تبرا بھیج کر ایک مذہبی اقلیت کے دانشور نے پھر وہی دعویٰ کیا ہے جس کی تردید کئی بار کی جا چکی ہے۔ تاریخ ہزار بار اس کی نفی کرے لیکن وہ اپنے موقف کو بار بار دہراتے رہیں گے تاکہ مطالعے سے عاری نوجوان ان کے جھانسے میں آجائیں اور ان کے نقطہ نظر کو قبول کر کے قائداعظم کو انگریزوں کا ایجنٹ اور قیام پاکستان کو انگریزوں کا تحفہ سمجھ لیں۔ کیا یہ تحریک پاکستان کے کارکنوں کی تاریخی قربانیوں اور پاکستان کی اساس کو مسمار کرنے کی سازش نہیں؟

مذہبی اقلیت کے ایک معروف دانشور نے پھر وہی دعویٰ دہرایا ہے کہ 1940ء میں ہندوستان کے وائسرائے لارڈ لنلتھگو نے وائسرائے کونسل کے رکن سر ظفر اللہ خان سے تقسیم ہندپر نوٹ تیار کرنے کو کہا۔ لارڈ لنلتھگو نے وہی نوٹ قائداعظم کو دے دیا اور قائداعظم نے اسے 23مارچ 1940ء کو مسلم لیگ کے اجلاس میں منظور کروا لیا۔ بعدازاں اسے قرارداد پاکستان کا نام دے دیا گیا۔ مجھے علم نہیں کہ خان ولی خان نے اپنی کتاب اور ڈاکٹر مبارک علی نے اپنے مضامین میں یہ بات اس مذہبی اقلیت کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر لکھی یا اقلیتی دانشوروں نے یہ موقف ان کی تحریروں سے مستعار لیا۔

لطف کی بات یہ ہے کہ مذہبی اقلیت کے یہ دانشور بظاہر اس حقیقت سے بھی لاعلم ہیں کہ خود چودھری ظفراللہ خان قرارداد پاکستان سے کسی قسم کے بھی تعلق کی نفی اور تردید کر چکے ہیں۔ 25دسمبر 1981ء کو ان کا ایک بیان دوسرے اخبارات کے علاوہ ’’ڈان‘‘ کے پہلے صفحے پر چھپا جس کے بعد اس بحث کا سلسلہ بند ہو جانا چاہئے تھا۔ سر ظفراللہ خان کا بیان ملاحظہ فرمایئے۔

"Sir Zafarullah has denied having ever presented a formula of dividing the sub-continent to the then Viceroy..... vehemently refuting (Wali Khan's assertious) he stated that he only gave opinions to the Viceroy whenever asked to do so.... It is unthinkable that his opinions were passed on to the Quaid-e-Azam and he accepted without hesitation..... It was unimaginable that a formula initiated on March 12 was incorporated on March 23, 1940. During those days it took more than two week for a communication to reach India from England

انہوں نے واضح کیا کہ ’’میں نے وائسرائے لنلتھگو کے کہنے پر ایک اسکیم بنائی تھی جس میں متحدہ ہندوستان کے اندر فیڈریشن کا تصور دیا تھا نہ کہ تقسیم ہند کا۔ اطلاع کے لئے عرض ہے کہ وہ اسکیم پروفیسر اکرام کی کتاب "Truth is Truth"میں بطور ضمیمہ شامل ہے۔ مسلم لیگ ریکارڈ کے مطابق قرارداد لاہور ڈرافٹ کرنے کے لئے سر سکندر حیات، ملک برکت علی اور نواب اسماعیل خان پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی تھی۔ اس کمیٹی کے تیار کردہ ڈرافٹ پر سبجیکٹ کمیٹی نے قائداعظم کی صدارت میں 23مارچ کو سات گھنٹے بحث کی۔ یہ ڈرافٹ مسلم لیگ آرکائیوز میں موجود ہے۔ اس میں علی محمد راشدی، محمد نعمان، ظہیرالدین فاروقی، مشتاق گورمانی، حسین امام، زیڈ ایچ لاری، رضوان اللہ، عبدالحمید خان، نواب آف چھتاری، عزیز احمد اور عاشق حسین بٹالوی وغیرہ وغیرہ نے ترامیم تجویز کیں۔ خود قائداعظم کے اپنے ہاتھ سے لکھی ترمیم بھی قرارداد پر دیکھی جاسکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ ڈرافٹ وائسرائے کی طرف سے آیا تھا تو یہ ترامیم ہوا میں کی جارہی تھیں؟

ایک بات شواہد سے ثابت ہو چکی کہ قرارداد کا ظفراللہ خان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ متحدہ ہندوستان کے حامی تھے۔ سوال یہ ہے کہ بنیادی مسودہ کس نے تیار کیا جس میں ڈھیروں ترامیم کی گئیں اور مسلم لیگ کے بہترین دماغ سات گھنٹے اس پر غور کرتے رہے۔

قرارداد پاکستان کی منظوری کے تقریباً ایک سال بعد پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی میں اس حوالے سے سوال پوچھا گیا جس کا جواب دیتے ہوئے پنجاب کے پریمیئر (وزیراعظم) سر سکندر حیات نے کہا کہ قرارداد کا بنیادی ڈرافٹ میں نے تیار کیا تھا لیکن ورکنگ کمیٹی نے بے شمار ترامیم کر کے اسے یکسر بدل دیا۔ سر سکندر نے یہ وضاحت بھی کی انہوں نے متحدہ ہندوستان کے اندر فیڈریشن کی بنیاد پر قرارداد تیار کی تھی لیکن ورکنگ کمیٹی نے اسے تقسیم ہند اور مکمل آزادی کا مطالبہ بنا دیا۔ ظاہر ہے کہ تقسیم ہند اور مکمل آزادی کی قرارداد تیار کر کے سر سکندر حیات وائسرائے کی ناراضی کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے تھے کیونکہ جناب شریف الدین پیرزادہ اور پروفیسر اکرام کی کتابوں میں دیے گئے مواد سے واضح ہوتا ہے کہ وائسرائے نے مسلم لیگ کے اجلاس کو ملتوی کروانے کے لئے خاصا دبائو ڈالا تھا اور اس مقصد کے لئے سر ظفراللہ کو بھی استعمال کیا تھا۔ سر سکندر حیات نے بحیثیت پریمئر پنجاب یہ بیان پنجاب اسمبلی میں دیا جس کی مسلم لیگ نے کبھی تردید نہیں کی اس لئے تاریخی حقیقت یہی ہے کہ قرارداد پاکستان کا بنیادی ڈرافٹ سکندر حیات نے تیار کیا جسے مسلم لیگ کی سبجیکٹ (Subject)کمیٹی نے یکسر تبدیل کر کے اپنی امنگوں کے سانچے میں ڈھالا۔ کیا یہ توقع کی جائے کہ آئندہ اس حوالے سے ابہام پیدا کرنے کی سازش نہیں کی جائے گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)