بحر جنوبی چین امریکی آکٹوپس پھندہ

December 03, 2012

دُنیا میں یہ بات خوب اچھی طرح سمجھی جاتی ہے کہ روسی اور اُس کے اتحادی باتیں بہت بڑی بڑی کرتے ہیں مگر کام کرتے ہیں جبکہ امریکہ بڑی باتیں کرتے بھی رہتے ہیں اور چھوٹے مسئلہ کو بڑا بنا کر اُسے ختم کرتے ہیں اور اپنی طاقت کا سکہ جماتے ہیں یا وقت سے بہت پہلے تیاری کر لیتے ہیں اور ضرورت سے زیادہ کرلیتے ہیں۔ اِس سلسلے میں عراق، افغانستان کی مثال سامنے ہے اور اب جنوبی چین کا سمندر ہے جہاں وہ بڑی تیاریوں میں لگا ہوا ہے جو وقت سے بہت پہلے اور بہت بڑے پیمانے پر کی جارہی ہے جبکہ چین خاموشی سے اپنے کام میں لگا ہوا ہے۔ اس نے ارادہ باندھا ہوا ہے کہ وہ 2020ء سے پہلے کسی تنازعہ میں نہیں الجھے گا مگر امریکہ یہ چاہتا ہے کہ چین اُس سے پہلے کسی جنگ کا حصہ بن جائے یا اگر نہ بھی بنے تو 2020ء میں اس کو اٹھتے ہی گرا دیا جائے۔ اب چین اور امریکہ کی سائنسی دفاعی ترقی کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ سوائے خلاء کے جہاں اُسے ایک سال سے کچھ عرصے کے لئے برتری حاصل رہی مگر پھر امریکہ نے اُسے جا پکڑا۔ وہ بھی صرف اِس صلاحیت پر کہ روس نے خلاء میں اپنے ہی سیارہ کی عمر ختم ہونے پر اُس کو ہی تباہ کردیا تھا۔ اب چین نے جنوبی چین کے ہزاروں کی تعداد میں جزائر پر اپنا حق ملکیت جتا دیا ہے تو امریکہ نے اُس کی ناکہ بندی کرنا شروع کردی ہے۔ بحری بیڑے بھیجے جارہے ہیں، جاسوسی کے نئے اڈے قائم کئے جارہے ہیں، چین کے اطراف ممالک کو اتحاد کے رشتہ میں جوڑا جارہا ہے، اُن کی ملٹری طاقت کو یکجا کرنے اور اُن کو زیادہ طاقتور بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ ویسے آسٹریلیا جاپان اور انڈیا کی بحریہ پہلے ہی کافی طاقتور ہیں۔ وہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ امریکہ ان کو جدید ترین بنانے میں لگ گیا ہے جبکہ انڈیا نہ صرف مشرق بعید میں بلکہ سینٹرل ایشیا کے ممالک میں بھی اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کی کوشش کی ہے، تاجکستان میں اڈہ قائم کرنے میں وہ دس سال سے لگا ہوا ہے اور 70 ملین ڈالرز خرچ کرچکا ہے۔ اگرچہ اسے تاحال کامیابی نصیب نہیں ہوئی ہے کہ روس آڑے آرہا ہے کہ وہ زیراثر علاقہ میں امریکہ کے زیراثر ملک کو نہ آنے دے۔ افغانستان میں وہ اپنا اثرورسوخ قائم کرچکا ہے اور پاکستان کو دونوں طرف سے بھیجنے کی کوشش کرے گا تاجکستان کے اڈے ”عینی“ اور آزاد کشمیر کا فاصلہ صرف 16 کلومیٹر رہ جائے گا۔ یہ انڈیا کے توسیع پسندانہ عزائم کا ثبوت ہے۔ امریکہ جس طرح کی کوشش چین کے مقابلے میں کرررہا ہے وہ کسی بھی طرح جائز نہیں ہے کیونکہ چین کی لبریشن آرمی نہ اِس برق رفتاری سے ترقی کرسکتی ہے کہ ان سب طاقتوں کا مقابلہ کرسکے اور نہ ہی سائنسی میدان اس کے مدمقابل آسکے مگر امریکہ کو یہ چڑ ہے کہ کوئی ملک آگے بڑھنے کی سوچ بھی کیوں رہا ہے تاہم معاشی میدان میں چین کی ترقی بے مثال ہے جس کی وجہ سے امریکہ فکرمند ہے کہ وہ معاشی طور سے تنزلی کا مسافر ہے۔ روس بھی چین سے اسی وجہ سے خائف ہے اور اُس کے جنوبی چین کے سمندر پر حق ملکیت نے بھی اس کے مفادات پر ضرب لگائی ہے۔ اگرچہ عملاً چین نے کسی کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی ہے۔ جنگ کا بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے مگر امریکہ چین کے خلاف اتحاد پر اتحاد بنائے چلا جارہا ہے۔ انڈیا و جاپان امریکہ ایک اتحاد پہلے سے موجود ہے۔ آسٹریلیا، جاپان امریکہ دوسرا اتحاد الگ سے ہے اور اب وہ اس کو انڈیا، جاپان، آسٹریلیا، امریکہ اتحاد میں تبدیل کررہا ہے۔ اس کے علاوہ جاپان سے لیکر تھائی لینڈ تک وہ کئی ممالک کو اس اتحادی رشتہ میں جوڑنے میں لگا ہوا ہے۔ جس میں ویت نام، برونائی، انڈونیشیا، ملائیشیا، سنگاپور، فلپائن، تھائی لینڈ اور آسیان کے دوسرے ممالک شامل ہیں کو اتحاد کی لڑی میں پرو رہا ہے۔ دوسری طرف انڈیا الگ سے ویت نام، منگولیا، تائیوان، تاجکستان اور افغانستان سے اسٹرٹیجک اتحاد کرچکا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ نے چین کے گرد گھیرا در گھیرا کا جال بچھا دیا ہے جس کو ہم آکٹوپس جال کہہ سکتے ہیں۔ یہ مکمل جنگ کی تیاری ہے مگر امریکہ کو یہ بات ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ اس طرح وہ جنگ کو یقینی بنا رہا ہے اور دُنیا کو عالمی جنگ کے آگ میں دھکیلنے کا مجرم بن رہا ہے۔ اس نے انسانیت کو اس قدر زخم لگائے ہیں جس کی گنتی و شمار ممکن نہیں ہے۔ ویت نام، عراق، افغانستان تو ایک طرف، انسانیت کی تذلیل اس نے کئی اور طریقوں سے کی ہے۔ انسانوں کو انسان نہیں کیڑے مکوڑے سمجھتا ہے۔ اُن کو جینے کا حق دینا نہیں چاہتا۔ اپنی بالادستی، اپنی حاکمیت، اپنی تہذیب کو تمام دُنیا پر تھوپنا اُس کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اس نے اپنی طاقت کو جمانے اور اپنے جدید سائنسی اسلحہ کو آزمانے کے لئے انسانوں کو بے دریغ مارا ہے۔ سونامی، زلزلہ اور سیلاب کی صورت میں، چین، ہیٹی، روس، ایران اور پاکستان اس کے سب سے بڑے ہدف رہے ہیں۔ چین میں ہارپ کی تکنالوجی سے مئی کے تودوں کا گرنا، روس کے سربیا میں برف کا پگلنا اور ایران و پاکستان میں زلزلہ اور پاکستان میں غیرفطری سیلاب سے حملہ کی صداقت کئی ذریعوں سے ثابت ہوئی ہے۔ کئی آزاد ممالک جو خود بھی امریکہ کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنے ہیں وہ اس بات پر شبہ کرتے ہیں کہ یہ حملے امریکہ نے ہی کئے۔ اگرچہ اب وہ خود اس کی زد میں آیا ہے اور عین ممکن ہے کہ مزید اور آئے کیونکہ فطری نظام کی زد میں وہ بھی آسکتا ہے۔ مگر جب کبھی بھی اس پر آفت آتی ہے وہ اس کا بدلہ دُنیا کی غریب اور کمزور قوموں سے لیتا ہے چاہے وہ دوست ہوں یا دشمن۔ ہنری کنسگر کہتے ہیں کہ امریکہ اپنے دشمن کے خلاف سخت ہے مگر اپنے دوستوں کے خلاف اس سے بھی زیادہ ایذا رساں ہے۔
اس وقت جنوبی چین کے سمندر میں امریکی آکٹوپس پھندہ بنانے میں لگا ہوا ہے۔ انسانیت اس کے ظلم سے پہلے ہی لرزاں ہے اب جانے میں کتنا خون اور بہے گا اور کون کون اس جنگ کی آگ کا ایندھن بنے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔