ہے کو ئی…؟

October 05, 2018

میراحساب کمزور نہ ہوتاق تو میں آپ کو بتا سکتا تھا کہ گزشتہ کئی سالوں میں وزرا، سفرا، حکمرانوں، میڈیا اور عام لوگوںنے کروڑوں مرتبہ سی پیک کی گردان کرتےہوئے تقریباً اتنی ہی بار اس کو گیم چینجر قرار دیا ہے۔ پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ کرتے وقت ہزاروں مرتبہ یہ کہا اور لکھاجاتا رہا ہے کہ عالمی منڈیوں میں آئل کی فی بیرل قیمت میں اضافے کی وجہ سے اور اوگرا جو کہ ایک آزاد ادارہ ہے، کی سفارش پر مجبوراً تیل کی قیمتوں میںاضافہ کیا جا رہا ہے۔ بجلی کی قیمتوںمیںاضافہ کے وقت بھی دلائل دیتے ہوئے بار بار کہا جاتا ہے کہ ’’نیپرا‘‘ کی سفارش پر مجبوراً بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا، یا کہا جاتا ہے کہ آئی پی پیزسے مہنگے داموں معاہدوں کی وجہ سے بجلی مہنگی کی جا رہی ہے یا تھرمل اور ہائیڈرل پاور کی گردان کی جاتی ہے۔ ہر بحٹ کے بعد کہا جاتا ہے کہ امپورٹ اور ایکسپورٹ میں فرق کی وجہ سے خسارہ بڑھ گیاہے یا یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جی ڈی پی گروتھ میں اضافہ ہوا ہے یا ناسمجھ عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ گردشی قرضوں میں ہوشربااضافےسے حکومتی بوجھ بڑھ گیاہے۔ لیکن اگر ایک سروے کرایا جائے تو آپ یقین جانیے کہ گائوں، گوٹھوں، ڈھوکوں اور قصبوں میں رہنے والوں کو ان ساری گردانوں کی کوئی سمجھ نہیں اور نہ انہیں سمجھنے کا انہیں کوئی شوق ہے۔ سارا سارا دن کھیتوں میں زمین کا سینہ چیر کر فصلیں اگانے والا کسان، اینٹوں کے بھٹوں پر کوئلے کے ساتھ کوئلہ ہونے والے مزدور، سارا دن سیمنٹ، گارے اور اینٹوں سے لڑائی کر کے دیہاڑی لگانے والا مستری، سڑکوں اور شاہراہوں پر بجری کوٹنے اور تارکول کے سیاہ اور لیس دار مادے سے اَٹے ہوئے کپڑوں والا مزدور، پرانی گاڑیوں کے نیچے لیٹ کر نٹ بولٹ کسنے والا کاریگر، تنوروں کی گرمی میں روٹیاں لگانے والا تنورچی اور ہوٹلوں میں بیرا گیری کرنے والا ویٹر، کندھے اور بازئوں کا انجن بنا کر ریڑھا کھینچنے والا محنت کش، اپنی پیٹھ کو کرین بنا کر بوریوں اور سیمنٹ کے توڑوں کو ٹرکوں پرلادنے والا لیبر، ٹرینوں کے پیچھے پیچھے بھاگ کر لوگوں کا بوجھ اٹھانے والا قلی، چلتی ٹرین کے ایک ڈبے سے دوسرے ڈبے میں جانے والا وینڈر اس بات سے بے خبرہے کہ سی پیک کیا ہے، گیم چینجر کیا ہوتا ہے، اوگرا کیا ہے، عالمی منڈی کس بلا کا نام ہے اور بیرل کیا ہوتا ہے۔ نیپراکسے کہتے ہیں، آئی پی پیز کس میٹریل کا نام ہے۔ تھرمل اور ہائیڈرل کے فرق کو کیسے جانا جا سکتاہے۔ امپورٹ اور ایکسپورٹ کا فرق کیا ہوتا ہے۔ جی ڈی پی سے کیا بنتا ہے۔ گردشی قرضے کیسے بڑھ جاتے ہیں… ان بے چاروں کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ تعلیم اور صحت پر ان کا کیا حق ہے یا یہ کہ پینے کا صاف پانی ہی صحت کا ضامن ہے۔ انہیں تو اتنا ہی معلوم ہے کہ ان کے پینے اور جانوروں کےپینےکےلیے بس پانی ہونا چاہیے۔ انہیں تو صرف یہ فکر ہوتی ہے کہ آج کے دن دو روٹیاں کیسے کھا سکیں گے۔ بھوکی اور پیاسی ماں اپنے شیر خوار بچے کو دودھ کے دو گھونٹ کیسے پلا سکے گی، یا روز بروز سوکھے کا شکار ہونے والا معصوم بچہ کس غذائی قلت کا شکار ہے، ان لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ پچھلی حکومت کا وزیرِ خزانہ کون تھا اور آئی ایم ایف کس جن کا نام ہے۔ موجودہ وزیرِ خزانہ کون ہے، اس نے کون سے اچھے اقدامات کئے ہیں اور حقیقت میں بہتری آ رہی ہے یا نہیں، یا یہ کہ معیشت کس دوا کا نام ہے۔ اس ملک کی ستّر فیصد آبادی اب بھی اس بات سے نابلد ہے کہ کس حکومت نے اچھا کام کیا اور کس نے برا، وہ تو دو وقت کی روٹی اور اپنے دیسی ٹوٹکوں سے بیماری کا علاج کرنے کی فکر میں مبتلا ہے۔ ٹوٹے ہوئے پلنگ یا اسپتال کی راہداریوں میں بچوں کو جنم دینے والی ماں کو یہ نہیں معلوم کہ کیلشیم کیا ہوتا ہے یا ہائی بلڈ پریشر کو کس طرح کنٹرول یا لو بلڈ پریشر کو کس طرح درست کرنا ہے، اسے تو یہ فکر ہوتی ہے کہ محلے یا گائوں کی دیگر نوجوان مائوں کی طرح کہیں وہ بھی بچے کو جنم دیتے ہوئے دنیا ہی سے رخصت نہ ہو جائے۔ خدارا! اس غریب عوام کو دو وقت کی روٹی، سر درد کی گولی، بجلی کے معمولی بل، گلیوں اور محلوں میں سارا سارا دن پھٹے کپڑوں میں ملبوس مٹی کے گھروندوں سے کھیلتے بچوں کو تعلیم، ایڑیاں رگڑتے مریضوں کو صحت اور آلودگی کی وجہ سے بیماری کی چادر اوڑھ کر منوں مٹی کےنیچےجاتےافراد کو ریلیف دے دو۔ انہیں یہ معلوم نہیں کہ پارلیمنٹ کے کس بل کے منظور ہونےسے ان کی زندگیوں میں انقلاب آ جائے گا، گاڑیوں اور بھینسوں کی نیلامی سے کیا فائدہ ہوا ہے۔ہے کوئی جو عوام کو الفاظ کی جادوگری میں الجھائے بغیر دو وقت کی عزت کی روٹی دیدے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)