پی ٹی آئی اورآئی ایم ایف

October 15, 2018

واٹسن سلیم گل۔۔۔۔ایمسٹرڈیم
پی ٹی آئی کی حکومت نے آئی ایم ایف کو قرض کے لئے باقاعدہ درخواست دے دی ہے یہ درخواست آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ کو پیش کی گئی۔ یاد رہے کہ کرسٹین لیگارڈ وہی ہیں جنہوں نے نواز حکومت کی معاشی پالیسی کی مثبت انداز میں تعریف کی تھی اور یہ وہ وقت تھا جب پاکستان نے 2016 میں آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہا تھا۔ پاکستان مجموعی طور پر آٹھ ارب سے 12 ارب ڈالر تک قرض حاصل کر سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے آتے ہی کام دکھانے شروع کر دئیے ہیں اور آج جب کہ حکومت کو وجود میں آئے ہوئے 54 دن گزر چکے ہیں ان 54دنوں میں مجھے کم از کم ابھی تک حکومت کی کوئی کل سیدھی نظر نہیں آئی۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے خود ہی معیشت کے حوالے سے ن لیگ کے خلاف اتنا پروپیگنڈا کیا تھا کہ ملک میں ایک بے یقینی کی سی فضا پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ سے ملک کی معیشت پر بہت منفی اثر پڑا ہے اور بلآخر حکومت نے آئی ایم ایف کے سامنے کشکول پھیلا دیا ہے اور اب آئی ایم ایف والے اس میں کیا ڈالتے ہیں اور کیا شرائط رکھتے ہیں ان کا فیصلہ تو آئی ایم ایف کرے گا۔ کیونکہ مدد مانگنے والا تو مدد مانگتا ہے مگر مدد دینے والا کتنی مدد کر سکتا ہے یہ اس پر منحصر ہے اور حکومت تو پہلے ہی گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا چکی ہے اور اب آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بعد پاکستانی عوام کو ایک بار پھر مہنگائی کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ اس بوجھ میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد پیدا ہونے والا بوجھ شامل نہیں ہے۔ آج کل تقریبا تمام ٹی وی چینلز پروزیراعظم عمران خان کی ویڈیوز چل رہی ہیں جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ میں اگر وزیراعظم بنا تو آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر خودکشی کرنا قبول کرونگا۔ یہ ویڈیوز دیکھ کر شاید کچھ لوگ خوش ہو رہے ہوں۔ عمران خان کے مخالف اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے بھی نظر آئے مگر یقین کریں کہ عمران خان کے نظریات سے اختلافات کے باوجود مجھے بہت دکھ ہوا کیونکہ ان حالات کا اثر میرے ملک پر ہوا ہے اور پاکستان مزید قرضوں کے بوجھ کے نیچے آگیا ہے۔ ہماری اسٹاک ایکسچینج مارکیٹ کرش کر گئی یہ بھی ملک کی تاریخ میں ایک دن میں ہونے والا سب سے بڑا نقصان ہے۔ مگر حکومت کا یہ موقف ہے کہ چونکہ ماضی میں پیپلزپارٹی اور نواز شریف کی حکومت نے ملک پر تیس ہزار ارب کا قرضہ لاد دیا ہے اس لئے ہمیں مشکلات کا سامنا ہے۔ مگر عمران خان اپنی تقریروں میں دعویٰ کیا کرتے تھے کہ ان کے پاس دوسو تربیت یافتہ اور انتہائی قابل لوگوں کی ٹیم موجود ہے جو آتے ہی سب کچھ ٹھیک کر دے گی مگر یہ ٹیم تو الٹے سیدھے بیانات دے کر اپنے لئے مشکلات کھڑی کر لیتی ہے۔عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت کے آتے ہی بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے ڈالرز کی بارش ہو جائے گی۔ عمران خان نے بیرون ملک پاکستانیوں سے بھاشا ڈیم فنڈز کے لئے ایک ہزار ڈالر فی کس کے حساب سے اپیل کی تھی مگراس اپیل کو بھی آج دو ہفتے سے زائد ہو چکے ہیں۔ کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں آیا ہے۔ میں عمران خان کے بیانات سے کنفیوژ ہو جاتا ہوں وہ حکومت میں نہیں تھے تو پولیس افسران اور بیوروکریٹس کو اپنی تقاریر میں مخاطب کر کے کہا کرتے تھے کہ آپ آزادی سے کام کریں اور حکومت کی لائن پر چلنے کی ضرورت نہیں ہے حکومت کا کوئی حق نہیں ہے کہ وہ افسران کے تبادلے اور تقرریاں کریں۔ عمران خان نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے تبادلے کے حوالے سے سندھ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا تھا جب سندھ حکومت نے اے ڈی خواجہ کا تبادلہ کیا تھا۔ آج عمران خان کی حکومت بیوروکریسی کو اپنی مرضی سے زبردستی چلانے کے لئے زور لگا رہی ہے بلکہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے تو افسران کو کہہ بھی دیا ہے کہ ہماری مرضی سے کام کرو ورنہ نوکری چھوڑ دو۔ نواز شریف کی حکومت میں عمران خان کننٹینر پر کھڑے ہو کر عوام کو کہا کرتے تھے کہ وہ پیسے بینکوں کے بجائے ہنڈی کے زریعے بھیجیں آج وہ خود منی لانڈرنگ پر لیکچر دیتے ہیں۔ عمران خان پیپلزپارٹی اور ن لیگ پر یہ الزامات لگاتے رہے ہیں کہ ان کی حکومتوں میں رشتہ داروں اور دوستوں کو وزیر اور مشیر بنایا گیا اور میرٹ کو نظر انداز کیا گیا۔ مگر عمران خان نے بھی خود ایسا ہی کیا جب پاکستان کرکٹ بورڈ کے چئیرمین نجم سیٹھی کے استعفے کے صرف ایک گھنٹے بعد احسان مانی کی تقرری کا اعلان کر دیا پھر زلفی بخاری کا تقرر صرف دوستی کی بنیاد پر کیا گیا جب کہ زلفی بخاری کے خلاف کیس ابھی نیب کی میز پر موجود ہے۔ ایک اور دوست انیل مسرت جو زلفی بخاری کی طرح برطانوی شہری ہیں ان کو بھی 50لاکھ گھروں کے حوالے سے مشارت کی زمہ داریاں سونپی ئی ہیں۔ عون چوہدری کی قابلیت بھی صرف یہ ہے کہ وہ عمران خان کے دوست ہیں جن کو وزیراعلی پنجاب کا مشیر بنایا گیا۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ عمران خان کی حکومت میں ایک نیا پاکستان ہوگا مگر یہ تو پرانا پاکستان نئی پیکنگ میں موجود ہے۔ صرف نئی پیکنگ اور نئے اسٹیکر اب آہستہ آہستہ اتر رہے ہیں اور اس میں سے پرانا پاکستان نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔ آج بھی حکومت اپنی پالیسی کا اعلان کرنے کے بجائے گزشتہ حکومتوں پر الزامات لگا کر وقت ضائع کر رہی ہے۔