پنجاب کا نیا بجٹ

October 18, 2018

حکومت پنجاب نے مالی سال 2018-19کے لئے صوبے کا2028 ارب 57کروڑ روپے کا بجٹ پیش کردیا ہے جس کے خاص نکات میں صحت کارڈ، ہیلتھ انشورنس، کسانوں کے لئے بلاسود قرضوں کے اجرا، نئی صنعتوں کے قیام، کاروبار میں اضافے اور نجی شعبے میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے زیادہ سے زیادہ ترغیبات شامل ہیں۔ گندم پر سبسڈی15ارب سے بڑھا کر ساڑھے32ارب روپے کردی گئی ہے۔ بڑی درآمدی گاڑیوں پر ٹیکس کم کر دیا گیا ہے جبکہ اسٹیمپ ڈیوٹی میں5گنا اضافہ کیا گیا ہے۔ بجٹ کو خسارے سے بچانے کے لئے وفاقی حکومت کی ہدایت پر ترقیاتی اخراجات میں نصف سے زیادہ کمی کی گئی ہے مقامی حکومتوں کے لئے439، تعلیم کیلئے 373 اور زراعت کے لئے93ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے اپنی بجٹ تقریر میں بتایا کہ اختیارات اور وسائل نچلی سطح پر منتقل کرنے کیلئے نیا بلدیاتی نظام لایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ٹیکس نظام میں کرپشن اور سسٹم کی پیچیدگیاں دور کرنے کی شکایات پر خصوصی توجہ دی جائے گی جس سے ٹیکس دینے کا عمل آسان ہو جائے گا۔ نئی پارکنگ سروس کے ٹیکس میں16فیصد اضافہ بھی بجٹ کا حصہ ہے۔ ملک کے معروضی حالات کے پیش نظر پنجاب کے نئے بجٹ کو مجموعی طور پر فلاحی قرار دیا جا سکتا ہے جس میں عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کی مقدور بھر کوشش کی گئی ہے تاہم ترقیاتی بجٹ411 ارب روپے سے کم کر کے238 ارب کردینا محل نظر ہے۔ اس سے بعض جاری منصوبے متاثر ہو سکتے ہیں جبکہ نئے منصوبوں سے بھی صرف نظر کرنا منطقی بات ہو گی۔ کسانوں کیلئے ڈھائی لاکھ قرضوں کے اجرا سے زراعت کو فروغ ملے گا صحت کارڈ اور ہیلتھ انشورنس کی اسکیمیں بھی اپنی افادیت کے اعتبار سے بہت اہم ہیں۔ جو صحت مند معاشرے کی بنیادی ضرورت ہیں بجٹ کی رقوم کو شفاف انداز میں خرچ کیا گیا اور گڈ گورننس پر خصوصی توجہ دی گئی تو توقع کی جا سکتی ہے کہ نئے بجٹ سے عوام کی مشکلات اور مسائل پر قابو پانے کیلئے حکومت کے اہداف بڑی حد تک پورے ہو جائیں گے۔