بلوچستان کی نوجوان آنکھوں میں والہانہ چمک

October 21, 2018

سندھی، پنجابی، بلوچی ہو کہ پشتو خوشبو

سب کو آپس میں ملاتی ہے مہکتی اُردو

میں کوئٹہ سے واپس کراچی آگیا ہوں۔ لیکن دل ابھی تک وہیں اٹکا ہے۔ کتنی محبتیں ملتی ہیں۔ وہاں خلوص ہے۔ مروت ہے۔ہماری کوشش ہے کہ ملک بھر کے نوجوانوں کو لکھنے لکھانے کی طرف راغب کریں۔ بہت خوشی بھی ہورہی ہے۔ دلی تسکین بھی۔ ہم انتہائوں میں رابطہ چاہتے ہیں۔ ٹوٹے دلوں کو جوڑنا چاہتے ہیں۔ ہمیں کامیابی ہورہی ہے۔ سرکاری زبان اُردو اور پاکستان کی دیگر قومی زبانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے ہم مضمون نویسی کے مقابلے منعقد کروارہے ہیں۔ لکھنا اُردو میں ہے۔ مگر اپنے اپنے محبوب علاقے کی ثقافت اور ادب کے ماضی حال مستقبل کے بارے میں۔ ملتان اور اس کے گردو نواح کے اضلاع میں سرائیکی ادب و ثقافت کے ماضی حال مستقبل پر مضامین بڑی تعداد میں موصول ہوئے۔ مئی کے گرم دنوں میں تقریب تقسیمِ انعامات منعقد ہوئی۔ اب دوسرا سنگ میل کوئٹہ میں بلوچ ادب و ثقافت۔ پشتون ادب و ثقافت۔ ماضی حال مستقبل کے موضوعات پر مضامین کے انعام یافتگان کے اعزاز میں تقریب بوائے اسکائوٹس ایسوسی ایشن کے جناح ہال میں تھی۔ بلوچستان کے دور دراز کے علاقوں سے مضامین بھی آئے اور انعام یافتگان بھی۔ جناح ہال میں قائد اعظم کی بڑی تصویر اور دیواروں پر پاکستان کے مختلف علاقوں کی ثقافت کی رنگا رنگ پینٹنگز۔ اور ان کے درمیان سردار بہادر خان ویمنز یونیورسٹی کی طالبات۔ بلوچستان کے نامور اہل قلم دانشور۔ ایوب بلوچ ۔ سرور جاوید۔ ممتاز یوسف۔ پروفیسر عرفان بیگ۔ سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک۔ نواب غوث بخش باروزئی۔ سابق اسپیکر راحیلہ درانی۔ موجودہ وزیر اطلاعات میر ظہور بلیدی۔ پروفیسر ڈاکٹر رخسانہ جبیں۔

دو نسلوں کے درمیان براہِ راست رابطہ۔ سب اپنے اپنے تجربات ۔ مشاہدات سناکر نئی نسل کو لکھنے پڑھنے کے خوش رنگ جہان کی طرف راغب کررہے ہیں۔ ہمارے مستقبل کی آنکھوں میں چمک بڑھ رہی ہے ۔ کسی کی توجہ اسمارٹ فون پر نہیںہے۔ نہ ہی آپس میں باتیں۔

عطا شاد یاد آرہے ہیں۔ گل خان نصیر۔ اور ان کے ہم عصر۔ سب ہی اپنے اپنے عہد کو اپنی روح پرور شاعری سے سرشار کرگئے۔ بلوچی اورپشتون ادب میں بہت قیمتی اثاثے ہیں۔ ریاست اپنا فرض ادا کرے تو یہ اثاثے نئی نسل کو منتقل ہوسکتے ہیں۔ جواں سال ڈاکٹر نیلوفر نے انتہائی پُر اعتماد لہجے میں تقریب کی نظامت کی ہے۔ وزیر اطلاعات ظہور بلیدی بہت فخر سے کہہ رہے ہیں کہ پہلا انعام ان کے علاقے تربت کی طالبہ زیبا سعید نے حاصل کیا ہے۔ ژوب سے دو بہنیں عروبہ شاہد اور ایمن شاہد۔ پشتون ادب اور بلوچ ادب میں انعامات جیت گئی ہیں۔ نبیلہ ملک کو تیسرا انعام ملا ہے۔ سب کے چہروں پر ایک تمازت ہے۔

بوائے اسکائوٹس ایسوسی ایشن کی عمارت میں کئی ہال ہیں۔ بیک وقت کئی کئی سیمینار، ورکشاپس اور تقریبات ہوتی رہتی ہیں۔ اپنے دَور کے عظیم فٹ بالر۔ جلال اپنی سادگی اور خلوص سے یہ تمام انتظامات اپنی نگرانی میں کرواتے ہیں۔

……………

کوئٹہ میں آتے ہیں تو کتنی ہی صدیاں پاس سے گزرتی ہیں۔ نواب محمد اکبر بگٹی۔ اپنے طمطراق اور بلند خیالی کے ساتھ یاد آتے ہیں۔ عبدالصمد اچکزئی کی چادر اور پُر عزم چہرہ۔ میر غوث بخش بزنجو کی سب کو قریب لانے کی کوششیں۔ امیر قلات نواب احمد یار خان کی شفقت بھری شخصیت۔ جام غلام قادر آف لسبیلہ۔ نواب محمد باروزئی۔ طاہر محمد خان۔ فصیح اقبال۔ رازق بگٹی۔ صدیق بلوچ۔ کس کس کی یاد تازہ ہورہی ہے اور وہ ہزاروں نوجوان جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔ جو بلوچستان کو شاندار اور پُر وقار بنانا چاہتے تھے۔

بازاروں میں رونقیں ہیں۔ کھانے پینے کا ہر بڑا سلسلہ موجود ہے۔ ملبوسات کے سارے برانڈز۔ مہنگی ۔ بڑی گاڑیاں۔ بلوچستان آگے بڑھ رہا ہے۔یہاں کے صدیوں پرانے لیکن آج بھی مرغوب۔ جوائنٹ۔ تری۔ سجی۔ نیلی چینک میں گرم گرم چائے ۔ نوجوان روایات پابندیوں کی زنجیریں توڑ کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہورہے ہیں۔ کوئٹہ ایئرپورٹ غریبانہ دَور سے نکل کر جدید برقی سیڑھیوں اور وائی فائی کے دَور میں داخل ہوچکا ہے۔ سمنگلی کی پہاڑیاں اپنے دامن میں نئے نئے پھول کھلتے دیکھ کر مسکرارہی ہیں۔کوہ مردار ۔ کوہ سلیمان کن اکھیوں سے تبدیل ہوتے شہر کو دیکھ کر مطمئن نظر آرہے ہیں۔ لیکن ان کی آوازوں پر کان دھریں تو لاپتہ نوجوانوں کے لیے سسکیاں بھی سنائی دیتی ہیں۔

انتہائوں میں رابطے ہورہے ہیں۔ اسلام آباد۔ کوئٹہ کے دلوں کی دھڑکنیں ایک ہونی چاہئیں۔ اسی طرح پنڈی اور کوئٹہ کے درمیان فاصلے بھی کم ہونے چاہئیں۔ لہجے بدلنے چاہئیں۔ 71سال ہوگئے ایک دوسرے سے ملتے جلتے۔ اب تو انہیں ایک دوسرے کو سمجھنا چاہئے۔ اپنی مجبوریوں کا بدلہ دوسروں کی محرومیوں سے نہ لیں۔ یہاں کوئٹہ چھائونی اور کوئٹہ شہر کوبھی اپنے درمیان کھڑی رکاوٹیں۔ خاردار تاریں ہٹانی چاہئیں۔ سب کو ایک ساتھ رہنا ہے۔ اب تو وردیوں میں بلوچستان کے خوبصورت، تنومند جسم بھی ملبوس ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے مزاج کو جاننے کے مواقع بڑھ رہے ہیں ۔ سب ایک جیسے ہیں۔ حضور اکرمﷺ نے آخری خطبے میں فرمادیا تھا سب انسان برابر ہیں کسی کو دوسرے پر فوقیت نہیں ہے۔

سدرن کمانڈ اب لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کے ہاتھوں میں ہے۔ اتنا نرم خو، مہرباں لہجے میں گفتگو کرنے والا جنرل میں نے اور نہیں دیکھا۔ یقیناً ان کے دَور میں محبتیں بڑھیں گی۔ ایران اور افغانستان سے جُڑی سرحدیں بہت حساس ہیں۔ لیکن ان علاقوں کے لوگوں کے آپس میں صدیوں سے رابطے ہیں۔ اکیسویں صدی قربت اور امن کی صدی ہے۔

جماعت اسلامی کے امیر مولانا عبدالحق ہاشمی ایک اہم مسئلے کی طرف توجہ دلارہے ہیں کہ کوئٹہ میں پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے 2ارب روپے کا خطیر عطیہ دے کر امراض قلب کی علاج گاہ کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ اسپنی روڈ پر 22ایکڑ پر یہ منصوبہ ابھی تک آغاز نہیں پاسکا تھا۔ مگر اب اسے کینٹ ایریا میں منتقل کرنے کی خبریں آرہی ہیں۔ قریباً ساری سیاسی پارٹیوں کا مطالبہ ہے کہ اسے اسپنی روڈ پر ہی تعمیر کیا جائے۔ کینٹ کے علاقے میں ناکوں اور چیک پوسٹوں کی وجہ سے مریضوں اور لواحقین کو بہت پریشانی ہوگی۔ مریض دل کا اسپتال جلد از جلد بلا رُکاوٹ پہنچنا جان بچانے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

ہم کوئٹہ سے رخصت ہونے والے ہیںتو معمر سیاستدان ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ تشریف لے آتے ہیں۔ وہ 1970 کی قومی اسمبلی کے رکن تھے جس نے 1973 کے آئین کی منظوری دی۔ ڈاکٹر صاحب اس وقت جوان رعنا تھے۔ انہوں نے دستور پر دستخط نہیں کیے تھے ان کی جمہوری سیاسی جدو جہد بہت طویل ہے۔ اس وقت بلوچستان کی نئی نسل کو جدو جہد کی طرف راغب کرنے کے لیے کارکنوں سے روابط میں مصروف ہیں۔ بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کے پرچم تلے نوجوانوں کو متحرک رکھے ہوئے ہیں اور بلوچستان کے قومی ۔ اقتصادی اور جمہوری مسئلے کے حل کے لیے اس عمر میں بھی اسی طرح سرگرداں ہیں۔

بلوچستان کی محبتوں کا قرض چند سو الفاظ میں نہیں چکایا جاسکتا۔ ان شاء اللہ آئندہ بھی ذکر رہے گا۔ پی آئی اے نے ہمیں وقت پر پہاڑیوں کے دامن سے اٹھایا اور بر وقت شہر قائد پہنچادیا۔ اس سے ہمیں یقین ہوا ۔ پاکستان آگے بڑھ رہا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)