پی ٹی آئی سے کہاں غلطی ہوئی؟

October 23, 2018

پاکستان تحریک انصاف، پی ٹی آئی، نے اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں اپنی 25جولائی کو جیتنی گئی تین سیٹوں میں سےدوسیٹیں حاصل کیں۔ یہ کافی حیران کن بات ہےکہ اس نے کراچی کے حلقےاین اے-247اور پی ایس-111 دونوں میں کامیابی حاصل کی، یہ سیٹیں صدرِ پاکستان عارف علوی اور گورنرسندھ عمران اسماعیل نے خالی کی تھیں جبکہ گورنرخیبرپختون خواہ کی خالی کی گئی سیٹ کےپی-71 ہارگئی۔ یکےبعددیگرےہونےوالے انتخا بات کے نتائج میں اُن کے حامیوں اور کارکنوں کی جانب سے’ملاجلا‘ ردِ عمل دیکھنے میں آیا۔ انھوں نے کہاں غلطی کی اور کیا وہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں گے یا نہیں ابھی یہ دیکھنا باقی ہے۔ کراچی میں پی ٹی آئی کی 25جولائی کےبعد سےیکےبعددیگرےفتح سےاُن کی مقامی لیڈرشپ کو مزید اعتماد ملا ہے کیونکہ اس سے ان کیلئے آئندہ سال کراچی میں ہونےوالے بلدیاتی انتخابات کاٹارگٹ واضح ہوتاہے۔ جبکہ ایم کیوایم (پاک) نے نتائج کوقبول نہیں کیا۔ یہ واضح کرتاہےکہ کم ٹرن آئوٹ کے باوجود فرق چند سوکی بجائے چند ہزار کا ہے۔ ایم کیوایم کےدھڑوں کےدرمیان پھوٹ اور پی ایس پی کی ناکامی سے پی ٹی آئی کو اپنی پوزیشن بہتر کرنے کاموقع ملا۔ پارٹی نے 2013کےبعد سے این اے247میں ہیٹ ٹرک مکمل کی ہے۔ بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال اور آئی ایم سے مددمانگے کے فیصلےسے قطع نظر، حکومت کےعام آدمی پر مزید بوجھ ڈالنے کےفیصلےسے پارٹی اور حکومت کو نقصان ہوگا۔ اگر عوام تمام ’بدعنوان لوگوں‘ کابلا امتیاز احتساب چاہتے ہیں تو وہ ریلیف اور کم بوجھ بھی چاہتے ہیں۔ لہذا گیس اور سی این جی کی قیمتوں میں اضافےکےبعد پاورٹیرف میں اضافے کی خبروں سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور وزیراعظم اور ان کی ٹیم پر دبائو بڑھےگا۔ یہ سچ ہے کہ مقبول لیڈرز کچھ غیرمقبول فیصلے کرنے کی طاقت رکھتے ہیں لیکن اگر یہ فیصلے کافی غیرمعقول ہوں تو اس سے لیڈر کی مقبولیت کا گراف کم ہوتا ہے۔ وزیراعظم کو میڈیا اور صحافیوں کے مشوروں پر حکومت نہیں چلانی چاہیئےبلکہ اپنے مشیروں کے مشوروں پر چلانی چاہئیےاور اسی لیے یہ اہم ہے کہ اچھے مشیر رکھے جائیں۔ پی ٹی آئی اور عمران خان اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں یا نہیں، حقیقت یہ ہےکہ سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو تبدیل کرنے کا فیصلہ غلط تھا۔ وہ پہلے ہی 60دن کےدوران بنوں، اٹک، سوات اور اب پشاور میں بھی ہار چکے ہیں۔ عمران خان سےبہتر کون جانتا ہے کہ اگر آپ ایسے کھلاڑی کو نکالتے ہیں جس نے کارکردگی دکھائی ہو توآپ اس سے میچ اور سیریز دونوں ہی ہارتے ہیں۔ خٹک کے انداز سے اختلاف کیاجاسکتاہے جواب ایک وفاقی وزیرِدفاع ہیں اور اب ان پر اپنے خاندان کو کافی سیٹیں دینے کاالزام ہے لیکن بالآخروہ کامیاب ہوئے ہیں۔ انھوں نے پی ٹی آئی کیلئے پہلی بارتاریخ رقم کی تھی جب نہ صرف انھوں نے کےپی میں حکوممت قائم کی بلکہ دوتہائی اکثریت بھی حاصل کی۔ عمران خان اس سے بہتر کیا نتائج حاصل کرسکتے تھے۔ کے پی میں تبدیلی کی کیا منطق تھی یہ صرف عمران خان جانتے ہیں۔ لیکن چونکہ اب وہ مرکز میں ہیں توپی ٹی آئی کوکے پی میں مشکلات کا سامناہے۔ اسی طرح عثمان بزدار کی بطوروزیراعلیٰ پنجاب نامزدگی ایک برا انتخاب تھا، اس لیے نہیں کہ ان کا تعلق جنوبی پنجاب کے علاقے راجن پور سے ہے یا وہ بہت ایماندار شخص ہیں بلکہ اس لیے کہ صرف 60دن میں انھوں نے ثابت کردیا کہ وہ ایک برے ایڈمنسٹریٹر ہیں۔ لیکن وزیراعظم انھیں اس وقت تک رکھنے پر بضد ہیں جب تک پی ٹی آئی اقتدار میں ہے، کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ پی ٹی آئی کو لاہور میں پہلے ہی شکست ہوچکی تھی۔ اگرچہ پنچاب سے میرے کچھ ساتھی مجھ سے اتفاق نہیں کرتے لیکن میں تاحال مانتا ہوں کہ لاہور سے وہ سیٹ چھوڑنا جو انھوں نے پی ایم ایل(ن) کے سینئر لیڈر خواجہ سعد رفیق سےکے خلاف جیتی تھی وہ درست فیصلہ نہیں تھا۔ یہ کافی واضح تھا کہ عمران خان کو تجربہ کار اور پی ایم ایل (ن) کے سینئرلیڈر کو ہرانے میں کافی مشکل ہوئی تھی اور وہ کافی قریبی فرق تقریباً700ووٹوں سے یہ سیٹ جیتے تھے، تو کس طرح پی ٹی آئی کاکوئی اور امیدوار اور وہ بھی ہمایوں اختر جو ایک تجربہ کار سیاستدان ہیں لیکن پی ٹی آئی میں ولید اقبال کے مقابلے میں نئے ہیں تو وہ یہ مشکل سیٹ حاصل کرلیتے۔ نرم مزاج بزدار کیلئے یہ ایک مشکل ہے جنھیں پہلے ہی سپریم کورٹ پاکپتن کیس میں وارننگ دی چکی ہے اور وہ آئی جی پولیس پنجاب کی تبدیلی کے فیصلے سے بال بال بچے کیونکہ آئی جی پولیس سندھ کی کیس میں بنائے گئے اصول کو کافی نرم کیاگیا اور یہاں لاگونہیں کیاگیا۔ لیکن عمران خان اور پی ٹی آئی کی حکومت کو دھچکا لگا کہ وزیراعظم کے قابلِ اعتماد آئی جی پولیس کے پی ناصر درانی جنھیں انھوں نے پنجاب پولیس میں اصلا حا ت کی ذمہ داری سونپی تھی وہ مستعفیٰ ہوگئے۔ اب یہ واضح ہے کہ حکومت دیوار سے لگا دیاگیاہے۔ جب سے درانی نے چھوڑا ہے تب سے حکومت نے پولیس ریفارمز کیلئے کسی کو بھی تعینات نہیں کیا۔ ایک ’مفت مشورہ‘۔ پنجاب پولیس آرڈر 2002 کافی تاحال کافی مناسب ہے اور اگر وزیراعظم حقیقت میں پنجاب پولیس کو غیر سیاسی کرنا چاہتے ہیں تو انھیں صرف پبلک سیفٹی کمیشن تشکیل دینے کی ضرورت ہے جسے سابق پی ایم ایل(ن) کی حکومت نے سیاسی وجوہات کی بناء پر تشکیل نہیں دیاتھا۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ موجود آئی جی پولیس کو پنجاب گورنر چوہدری سرور اچھا سمجھتے ہیں۔