کیا پھر کوئی نیا نظام آنے کو ہے ؟

October 28, 2018

بلدیاتی نظام فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں بھی نافذ کیا گیا تھا۔ جب نیا نیا نافذ ہوا تو لوگوں نے بہت پسند کیا، کیونکہ ان کے مسائل و معاملات نچلی سطح پر حل ہونے لگے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مختلف اقسام کے مفادات اور ترجیحات شامل ہونے سے اس کی افادیت و اہمیت ختم ہوکر رہ گئی، ارکان اسمبلی اپنے اپنے حلقے کے عوام کے نام پر ملنے والے ترقیاتی فنڈ حاصل ضرور کرتے لیکن اس فنڈ کا استعمال جیسا ہونا چاہیے ویسا ہوتا نہیں کیونکہ ان کے اپنے مفادات اور پھر یوں ہی نیچے تک شامل افراد کے مفادات، اس طرح فنڈ جس کام کے لیے جاری کیے جاتے وہ بمشکل آٹے میں نمک کے برابر رہ جاتے۔ ویسے بھی اتنے عرصے سے صوبائی حکومتوں میں ہر سال ترقیاتی کاموں کے نام پر جو فنڈ مختص کیے جاتے ہیں وہ یا تو استعمال ہی نہیں کیے جاتے یا اگر استعمال کیے جاتے ہیں تو کہاں کیے جاتے ہیں وہ نظر نہیں آتا۔ شاید اسی باعث وزیر اعظم عمران خان نے فی الحال پنجاب کے لیے نیا بلدیاتی نظام لانے کی منظوری دی ہے اور اس منظوری کو حتمی شکل دینے کے لیے اڑتالیس گھنٹے کا وقت دیا تھایہ کارروائی بالکل اچانک لگتی ہے، لیکن یہ کام لاہور میں صوبائی وزیر بلدیات کی جانب سے نئے بلدیاتی نظام پر بریفنگ کے دوران کیاگیا انہوں نے پرانے نظام بلدیات کی خامیوں کو دور کرنے اور نئے نظام کے لیے تین بنیادی اصول وضع کئے ہیں۔

پہلا یہ کہ نظام سادہ اور صاف ہو اس میں کسی قسم کی پیچیدگی نہ ہو۔ دوسرا یہ کہ بلدیاتی اداروں کے انتخابات براہ راست ہوں۔ تیسرا اور سب سے اہم یہ کہ منتخب ہونے و الے بلدیاتی نمائندے با اختیار ہوں۔ جو حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت کرسکیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے پنجاب کے لیے اس نظام کی نہ صرف منظوری دے دی ہے بلکہ اس نظام کے تحت ضلع اور تحصیل کی سطح پر میئر کا انتخاب بھی براہ راست کیا جائے گا۔ اور تمام ترقیاتی فنڈ جو انہیں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے توسط سے ملنے تھے اب براہ راست بلدیاتی نمائندوں کو فراہم کئے جائیں گے۔ مختص کی گئی رقم کا حجم تقریباً ساٹھ سے ستر ارب روپے تک ہوسکتا ہے۔ یہ بلدیاتی فنڈ پنجاب میں تو کسی قدر ہی سہی استعمال تو ہوئے تھے لیکن سندھ، بلوچستان اور خیبرپختون خوا میں تو نہ ہونے کے برابر استعمال ہوئے۔ بچنے والی رقم کے بارے میں یہ کہا گیا کہ واپس خزانے میں چلی گئی۔ اللہ جانے وہ گئی یا نہیں گئی۔ بہرحال عوام کی مشکلات اور بد حالی اسی طرح برقرار رہی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والا نیا نظام بلدیات کب آتا ہے اور کیسا آتا ہے اور اس کا ڈھانچہ کیسا ہوگا کارکردگی کیسی ہوگی؟ خصوصاً کراچی جیسے بڑے شہر میں جو اپنی وسعت اور ہیئت میں کئی خلیجی ممالک اور یورپی ممالک سے بڑا اور گنجان آباد ہے۔ کراچی کی تقریباً تمام ہی چھوٹی بڑی سڑکیں شدید قسم کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ نکاسی آب کے نظام کو درست کرنے والا کوئی نہیں۔ سڑکیں سیوریج کے پانی کی نہریں بنی ہوئی ہیں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر جوں کے توں ہیں، سندھ حکومت نے جناب چیف جسٹس صاحب کے احکامات کو بھی ہوا میں اڑادیا۔ ایک معاملے کی سنگینی کو دبانے کے لیے کوئی نہ کوئی نیا مسئلہ کھڑا کردیا جاتا ہے تاکہ عوام کی توجہ دوسری طرف کردی جائے۔

اب اگر بلدیات کا کوئی نیا نظام آنے والا ہے تو اس میں سب سے پہلے اہم تبدیلی یہ کی جائے کہ ہر قسم کے ترقیاتی فنڈ پارلیمنٹیریز کی جگہ ان آنے والے بلدیاتی نمائندوں کے سپرد کئے جائیں اور ان کی نگرانی اور جاری فنڈ کے صحیح استعمال پر کڑی نظر رکھی جائے اور سب سے اہم مسئلہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا ہوگا اس کے قواعد و ضوابط کو نافذ کردیا جائے۔ کوئی امید وار کسی سیاسی وابستگی کا اظہار نہ کرسکے اور تمام بلدیاتی قیادت کے ساتھ پولیس مقامی انتظامیہ اور تمام متعلقہ صوبائی ادارے منسلک کردیے جائیں۔ تمام شہری سہولیات اور ترقیاتی کاموں کے ساتھ بلدیات کے زیر انتظام صحت اور کھیل کے ادارے کے بارے میں بھی بلدیاتی نمائندوں کو جوابدہی اور نگرانی کی ذمہ داری دی جائے۔ جیسا کہ وزیر اعظم اعلان کرچکے ہیں کہ وہ ایسا بلدیاتی نظام دینا چاہتے ہیں جس میں منتخب عوامی نمائندوں کو کوئی ادارہ یا شخصیت بلیک میل نہ کرسکے۔

اب بھی جو کچھ موجودہ کابینہ کے ارکان کے بارے میں سننے کو مل رہا ہے جسے حکومتی ترجمان افواہیں اور دروغ بیانی سے تعبیر کر رہے ہیں کہ نئی کابینہ کے کچھ ارکان کی بدعنوانی اور کرپشن کی شکایت سننے میں آرہی ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں محترم وزیر اعظم خاموش ہیں اور کہیں سے کوئی مثبت بات سننے میں نہیں آرہی، حالانکہ یہی وزیر اعظم عمران خان جب صرف خیبرپختونخوا کی حکومت کے رکھوالے تھے۔ انہوں نے اس قسم کی شکایات پر اپنے کئی وزراء کو برطرف کردیا تھا۔ کئی ارکان تحریک انصاف کو اسی بد عنوانی کے الزمات میں یک طرفہ طور پر سزا سنا دی گئی تھی، لیکن اب جب کہ عمران خان صاحب پورے پاکستان کے وزیر اعظم بن چکے ہیں تو خود ان کے زیر سایہ بننے والی کابینہ کے ارکان کے بارے میں ان کے مخالفین جو الزامات لگا رہے ہیں تو وزیر اعظم کی خاموشی عوام کے دلوں میں شک و شبہات پیدا کر رہی ہے۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ ان الزامات کی یا تو تردید کریں یا ان کے بارے میں کسی تحقیق و تفتیش کا یا کسی کمیٹی کا اعلان کریں اور اگر واقعی کوئی رکن کابینہ یا پارلیمنٹ کے بارے میں الزامات کی تصدیق ہو تو اس کو قانون کے حوالے کریں تاکہ عوام کا ان پر اعتماد قائم رہے۔ عوام سمجھ لیں کہ خان صاحب جو کہتے ہیں وہ کرتے بھی ہیں۔ کیونکہ ان کی خاموشی سے ابہام پیدا ہو رہا ہے اور قوم یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ان کے سیاسی حریف ان کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلا رہے ہیں کہ بد عنوان اور کرپٹ وزراء وزیر اعظم کو بلیک میل کر رہے ہیں اور ان کو خوف دلا رہے ہیں کہ اگر ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کی گئی تو وہ حزب اختلاف کی حمایت کرنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔ا س طرح خان صاحب کو نہ صرف وزارت عظمی سے ہاتھ دھونا پڑسکتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ حزب اختلاف جس کے ساتھ اس بار زرداری صاحب کی جماعت پیپلز پارٹی بھی شامل ہوچکی ہے۔ ان کی چلائی ہوئی تحریک سے پارلیمان کے ذریعے عدم اعتماد کر کے تحریک انصاف کی حکومت کو گرایا جاسکتا ہے۔ بظاہر ایسا ہونا ناممکن بھی نہیں کیونکہ ماضی قریب میں نون لیگ کے صدارتی امیدوار صرف اس لیے ناکام ہوا تھا کہ پیپلز پارٹی نے خود اپنا امیدوار میدان میں اتار دیا تھا۔ یہ بات بھی خان صاحب اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیان جو اختلافات اور دوریاں ہوگئی تھیں اب خود زرداری صاحب کی کوشش سے وہ ختم ہوجائیں اور میاں نواز شریف شاید ڈوبتے کو تنکے کا سہارا سمجھ کر ان کے ساتھ پھر مل بیٹھیں تو تخت کا تختہ ہونےمیں دیر نہیں لگے گی۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔