دنیا کی نصف سے زائد آبادی متوسط طبقے پر مشتمل ہے

November 12, 2018

لندن : جان اگلیونبی

دنیا کی نصف سے زائد آبادی کی پہلی بار ملکی آمدنی اتنی ہے کہ اسے متوسط یا بالائی طبقے میں شمار کیا جاسکتا ہے،ہر سیکنڈ میں پانچ افراد اس صف میں شامل ہورہے ہیں۔

اعدادوشمار اکٹھا کرنے والے غیر منافع بخش ادارے ورلڈ ڈیٹا لیب کے چیف آپریٹنگ آفیسر کرسٹوفر ہیمل نے کہا کہ درمیانی طبقے کی تیز رفتار ترقی،جس میں اکثر ایشیا میں واقع ہورہی ہے، اس کے نمایاں اقتصادی اور سیاسی اثرات مرتب ہوں گے،جیسا کہ لوگ کاروباری اداروں اور حکومتوں سے زیادہ واجبات کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔

کرسٹوفر ہیمل نے کہا کہ یہ سنگ میل اہمیت رکھتا ہے کیونکہ متوسط طبقہ جدید معیشتوں کا انجن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تقریبا نصف عالمی اقتصادی طلب گھریلو اخراجات سے پیدا ہوتی ہے،جس کا نصف متوسط طبقے سے آتی ہے۔

2011 کی قوت خریدکی مقدار کی بنیاد پر ورلڈ ڈیٹا لیب نے متوسط طبقے کی تعریف کی کہ جس کی فی دن آمدنی 11 ڈالر سے 110 ڈالر ہو،بھارت اور میکسیکو سمیت کئی تنظیمیں اور حکومتیں اسے ایک معیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔اس ماہ کے آگاز میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ دنیا کی 3.59 ارب آبادی متوسط طبقے پر مشتمل ہے اور یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہیہ گروپ 2030 تک بڑھ کر 5.3 ارب ہوجائے گا۔

کرسٹوفر ہیمل نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو معیشت میں بننے والی زیادہ تر اشیاء پر خرچ کرتے ہیں۔ ذرائع نقل وحمل کی خدمات، وسیع اقسام کے صارفین کی مصنوعات اور مالیاتی مصنوعات کو سیع پیمانے پر لوگوں کی خدمات کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔

نئے متوسط طبقے کا تقریبا 90 فیصد ایشیا میں پائے جانے کی امید ہے جبکہ نسبتا پیمانے پر امریکا میں کم ترقی کا امکان ہے کیونکہ متعدد بڑے ممالک میں بالخصوص نائیجیریا اور جمہوریہ کانگوکی غربت سے باہر نکلنے کے لئے ان کی اقتصادی صلاحیتوں کے مقابلے میں ان کی آبادی بڑھنے کی رفتار زیادہ ہے۔

2030 تک دنیا میں 2011 پی پی پی کی بنیاد پرتقریبا 16 کھرب ڈالر کے ساتھ امریکا کے متوسط طبقے کی سب سے زیادہ قوت خرید برقرار رہے گی،جبکہ چین 14 کھرب ڈالر اور بھارت 12 کھرب ڈالر کے ساتھ اس سے زیادہ پیچھے نہیں ہیں۔

اعدادوشمار 188 حکومتوں اور ورلڈ بینک کی طرف سے جمع کردہ گھریلو آمدنی اور اخراجات کے سروے کا تجزیہ کرکے کے شمار کئے گئے تھے۔ ورلڈ ڈیٹا لیب کا دفتر ویانا میں قائم ہے اور جرمن حکومت، دی یورپیئن اسپیس ایجنسی اور اقوام متحدہ کا بچوں کا ادارہ یونیسیف اس کی امداد کرنے والوں میں شامل ہیں۔

واشنگٹن ڈی سی میں تھنک ٹینک ادارہ برکونگ میں سینئر فیلو جنہوں نے تحقیق کی سربراہی کی، ہومی خراس نے کہا کہ بڑھتا ہوا متوسط طبقہ ملٹی نیشنل کاروباری اداروں کی کامیابی کیلئے شاید زندگی مشکل ترین بنادے ۔

انہوں نے کہا کہ مزید مواقعوں کے ساتھ مقابلہ کا رجحان بھی بڑھتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ تر ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ہر جگہ ایک سی مصنوعات پیش کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے، اور متوسط طبقے کے بارے میں ایک چیز یہ پائی جاتی ہے کہ مصنوعات میں تفاوت کو پسند کرتے ہیں۔ نیلی جینز کے ایک جوڑے دوسری نیلی جینز کے جوڑے سے مماثل نہیں ہوتا۔

ہومی خراس نے حالیہ کامیاب باکس آفس پرہونے والی فلم کریزی رچ ایشیئن کی بطور مثال نشاندہی کی کہ کیسے کاروباری اداروں کو متنوع صارفین، بالاخصوص ابھرتی ہوئی ایشیائی مارکیٹ کو اپنی جانب متوجہ کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اگر آپ آج کی دنیا میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ آپ ایشیا کو کیسے متوجہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ حکومتوں کو بھی درمیانی طبقے کے بڑھتے ہوئے اثرات یا نتائج سے متاثر ہونے پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہوگی، برازیل جس کے اتوار کو صدارتی انتخابات ہوں گے، کا حولہ دیتے ہوئے ہومی خراس نے بطور مثال دی جہاں یہ پہلے آشکار ہوا۔ انہوں نے کہا کہ متوسط طبقہ بدعنوانی سے تنگ آچکا ہے، غیر معیاری عوامی خدمات سے بیزار آچکا ہے اور حکومت میں مسلسل تبدیلیوں کا انتخاب کیا۔وہ ابھی تک اسے تلاش نہیں کرپائے جو وہ چاہتے ہیں۔