برطانوی مسلمان اور بریگزٹ

November 17, 2018

روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن
گزشتہ کچھ عرصے سے برطانیہ میں ایک آن لائن سروے چل رہا ہے جس کے اندر فقط ہاں یا نہیں کے ساتھ یہ سوال پوچھا گیا ہے کہ کیا نقل مکانی کرکے آنے والے مسلمانوں کا اس وقت تک برطانیہ میں داخلہ بند کردینا چاہیے جب تک کہ دہشت گرد کی اسکریننگ کی صلاحیت پوری طرح موثر اور یقینی نہیں ہوجاتی۔ اس سروے میں شرکت کرنے والے16لاکھ افراد میں سے30فیصد لوگوں نے ہاں میں جواب دیا ہے۔ یعنی مسلمانوں کو داخل نہیں ہونے دینا چاہیے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کی رائے یہ ہے کہ خطرناک ممالک کے مسلمانوں کو تو یقینی طور پر ہمیشہ کے لئے برطانیہ آنے پر پابندی عائد کردینی چاہیے۔ سروے کا یہ سوال تو میرے خیال میں اس مفروضے پر بنایا گیا ہے کہ مسلمان تو ہوتے ہی دہشت گرد ہیں۔ اب ڈگری کے حساب سے جانچا جائے کہ کسی ڈگری سے نیچے ان کی برطانیہ آمد کو قابل برداشت سمجھا جاسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس سروے کے نیچے ہزاروں کمنٹس کرنے والوں نے چونکا دینے والے نکات اٹھائے۔ مثلاً ان کا خیال ہے کہ مسلمان برطانیہ میں برطانوی سوسائٹی کا حصہ بننے نہیں آتے بلکہ قبضہ کرنے کی غرض سے آتے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دلوں میں غیر مسلموں کے لئے کوئی احترام نہیں ہے اور وہ صرف اپنے اسلام کے پھیلائو کے ایجنڈے پر کام کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہی وجہ ہے کہ برطانیہ جیسی ملٹی کلچرل سوسائٹی میں ملٹی کلچرل ازم ختم ہوچکا ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ کسی بھی جگہ پر جونہی مسلمان خود کو ذرا زیادہ تعداد میں محسوس کرنے لگتے ہیں وہاں فوراً مسلم پارلیمنٹ یا شریعت کے نفاذ جیسے مطالبے شروع کردیتے ہیں۔ اسکولوں کے نصاب پر اثر انداز ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ مساجد بنانے کی طرف راغب ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اپنی مذہبی رسومات کو سڑکوں پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان30فیصد لوگوں کی آراء اور توجیحات سے متفق ہونا تو ضروری نہیں۔ البتہ16لاکھ میں سے30فیصد کا مطلب ہے کہ سوسائٹی میں اس طرح کی سوچ ضرور پائی جاتی ہے، جبکہ70فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ مسلمانوں کے برطانیہ آنے پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ اگر قانونی تقاضے پورے کرتے ہیں تو برٹش سوسائٹی کو انہیں اپنانا چاہیے۔ اسی ستر فیصد سے ہی سوسائٹی میں ہم آہنگی اورConsensosموجود ہے۔ ابھی آپ بریگزٹ کو ہی لے لیں جس کے شروع ہونے کی بنیاد ہی نسل پرستانہ ہے۔ مثلاً امیگریشن اور بارڈر پر سختی کرنا بریگزٹ کے حامیوں کا نسل پرستانہ سوچ سے یہ سمجھنا کہ یہ صرف گوروں کا ملک ہے اور صرف انہی کے لئے ہے۔ا س لئے اسے نقل مکانی کرکے آنے والوں سے پاک کیا جائے۔ بریگزٹ کے حامی اور لیڈ کرنے والے وہی لوگ تھے جو مسلمانوں اور یورپی نقل مکانی کرنے والوں کے سخت خلاف تھے۔ وہ نسل پرست تنظیموں کے سپورٹر رہے ہیں۔ نائیجل فراج کی پارٹی تو بدنام ہی نسل پرستی کی وجہ سے تھی، گوکہ اب اس بریگزٹ کے مسئلے نے فیصلہ کن نقطے کے قریب پہنچ کے برطانیہ کے لئے بہت حساس اور بحرانی کیفیت پیدا کردی ہے۔ وزیراعظم تھریسامے نے ای یو چھوڑنے کے لئے جو فارمولا پیش کیا ہے اس پر سیاسی پارٹیاں شدید تقسیم کا شکار ہوگئی ہیں۔ یوکے کی یکجہتی خطرے میں پڑ چکی ہے۔ آئر لینڈ اور سکاٹ لینڈ یورپی یونین میں ہی رہنا چاہتے ہیں۔ ان کے لئے ویسٹ منسٹر کے فیصلوں کے ساتھ چلنا مشکل ہورہا ہے۔ آئر لینڈ1922ء سے پہلے والی پوزیشن میں جاسکتا ہے۔ جس کا مطلب ہوگا کہ وہ ویسٹ منسٹر کو چھوڑ دیں اور شمالی اور جنوبی آئر لینڈ یکجا ہوجائیں۔ کنزرویٹو کے ایک سابق لیڈر مائیکل ہیزلٹائن نے بریگزٹ کو برطانوی عوام کے ساتھ ایک سیاسی فراڈ قرار دیا ہے۔ اگر یہ بریگزٹ ہوجاتا ہے تو برطانیہ کے اندر نسل پرست انٹی مسلم گروہ مضبوط طور پر متحرک ہوجائیں گے۔ خاص طور پر پھیلتے ہوئے مسجد کلچر کی وجہ سے نسل پرست گورے شدید تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ تاہم برطانیہ کے سیاست کو چلانے والے اصل ہاتھ مسلمانوں کو مذہبی سرگرمیوں میں الجھائے رکھنے میں اپنا اطمینان محسوس کرتے ہیں، جبکہ ہجرت کرکے برطانیہ آِنے والی مسلم کمیونٹی مذہبی سرگرمیوں میں ہی اپنی شناخت محسوس کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خود کو اس سوسائٹی کا حصہ نہیں سمجھتے نہ ہی خود کا یہاں کا حصہ بنا پائے۔ انہوں نے رسوم و رواج اور تہواروں کے ساتھ ساتھ لباس و خوراک میں بھی بہت حد تک اس سوسائٹی کو نہیں اپنایا۔ گزشتہ تین، چار دہائیوں سے دہشت گردی کے حوالے سے میڈیا اور مسلم طرز زندگی نے گوروں کے اندر اس نفرت کو خاصا مضبوط کیا ہے۔ ایسے سروے بھی اس نفرت کی فضا کو ہوا دیتے ہیں۔ اپنی اپنی وجوہات کے حوالے سے میں دونوں اطراف کا اس نفرت والی فضا اور ماحول بنانے کا ذمہ دار سمجھتا ہوں۔