اراکینِ پارلیمنٹ تحمل سے کام لیں

November 17, 2018

پارلیمنٹ ملکی و قومی مسائل پر سنجیدہ بحث اور قانون سازی کا فورم ہے مگر پچھلے چند ہفتوں سے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں جس طرح کے مناظر دیکھنے میں آ رہے ہیں قوم کے منتخب نمائندوں کے لئے مناسب ہو گا کہ ان کے مثبت اور منفی پہلوئوں پر غور کر کے خود ہی فیصلہ کریں کہ وہ سنجیدگی کے معیار پر کہاں تک پورا اترتے ہیں۔ منتخب ادارے قوم بالخصوص نوجوان نسل کے لئے مشعل راہ ہوتے ہیں اور قوم کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے اداروں کے ارکان مخالفت برائے مخالفت میں الجھے رہیں تو اپنے اصل فرائض سے ہٹ جاتے ہیں سینیٹ میں بعض وزراء اور اپوزیشن ارکان کے درمیان لفظی جنگ چیئرمین سینیٹ کے بار بار روکنے اور ٹوکنے کے باوجود ایک دوسرے کو براہِ راست مخاطب کرنا پھر صورت حال زیادہ خراب ہو جانے کے باعث چیئرمین کی جانب سے کوئی سخت رولنگ آ جانا، اپوزیشن کا واک آئوٹ اور ایوان کی کارکردگی میں خلل ایسی باتیں ہیں جس سے گریز ہی مناسب ہے۔ کھینچا تانی کی فضا میں پارلیمنٹ کی کارروائی معطل ہو جانے کا خدشہ پیدا ہوتا ہے۔ منتخب ادارے اس طرح کی ہنگامہ آرائی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ جمعرات کو ایک وزیر کے بارے میں چیئرمین کی رولنگ سے جن تلخیوں نے جنم لیا، ایک سنجیدہ ایوان میں غیر سنجیدہ ماحول پیدا ہو گیا۔ اس کی قطعاً کوئی ضرورت نہ تھی، اس سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور یہ بات آسانی سے سمجھ میں آنے والی ہے کہ کشیدگی کے ماحول میں دور رس نتائج کے حامل فیصلے نہیں ہو سکتے۔ قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیاں قوم کی اجتماعی دانش کی نمائندگی کرتی ہیں، پارلیمنٹ کا اپنا ضابطہ اخلاق موجود ہے، جس پر سختی سے عمل ہونا چاہئے۔ سیاسی اختلافات کے جو مظاہر اسمبلیوں میں نظر آنے لگے ہیں، انہیں پارلیمنٹ سے باہر سیاسی جلسے، جلوسوں تک رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے نمائندوں پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی بنائی جائے جو ایوانوں کے اندر ماحول بہتر بنانے کیلئے دونوں اطراف کے ’’عقابوں‘‘ سے مل کر معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے۔