آئی ایم ایف اور اس کی شرائط

November 19, 2018

ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے دوست ملکوں سے تعاون کے حصول کی‘ حکومت کے مطابق، انتہائی کامیاب کوششوں کے باوجود آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے گزشتہ روز ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا ہے کہ ان کی حکومت کے ابتدائی تین مہینوں میں معاشی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ وزیراعظم کے سعودی عرب اور چین کے دورے بہت کامیاب رہے ہیں اور ان سے قومی معیشت کو مستحکم کرنے میں بڑی مدد ملی ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ دوست ملکوں کے اس تعاون کے باوجود ملک کو درپیش معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج لینا بھی ناگزیر ہے جبکہ وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے حوالے سے منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق ہفتے کو آئی ایم ایف کی ٹیم اور وفاقی حکومت کے درمیان جاری مذاکرات میں آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو قرض فراہم کرنے کے لیے خاصی سخت شرائط پیش کی گئی ہیں اور عالمی مالیاتی ادارے نے اپنے مطالبات کی فوری منظوری تک قرض کی فراہمی سے انکار کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام پر یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ تمام مطالبات فوری ماننا ہوں گے، بصورت دیگر قرضے کی فراہمی کا وعدہ نہیں کیا جا سکتا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی ٹیم نے چار شرائط پیش کی ہیں۔ مالیاتی ادارے کی پہلی شرط یہ ہے کہ ایف بی آر ٹیکس وصولیوں کی کمی پر قابو پائے اور مستقبل میں 4100ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف پورا کرنے کا طریقہ کار واضح کرے۔ آئی ایم ایف کا دوسرا مطالبہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت کا کنٹرول نہ کیا جانا اور اس کا تعین مارکیٹ پر چھوڑ دینا ہے جبکہ تیسری شرط میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اپنا مالی خسارہ کم کرنے کے اقدامات واضح کرے اور پہلے چار ماہ میں 150ارب روپے سے زیادہ کا خسارہ پورا کرنے کا طریقہ کار بتائے۔ وفد کی چوتھی شرط توانائی کے شعبے کے گردشی قرضے کا خاتمہ اور مستقبل میں اس سے بچاؤ کا یقینی بنایا جانا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق ہفتے کو ہونے والے مذاکرات میں آئی ایم ایف کی ٹیم نے پاکستانی حکام کی اس یقین دہانی کو مسترد کر دیا کہ بہتر گورننس اور مالی نظم و ضبط کے ذریعے مالی خسارہ اور ریونیو وصولی کا ہدف پورا کر لیا جائے گا، تاہم مذاکرات اتوار کو بھی جاری رہیں گے۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ دوست ملکوں سے تعاون کے حصول میں کامیابی کے بعد وفاقی حکومت کے ذمہ داروں کی جانب سے ظاہر کی گئی یہ توقعات کہ اب آئی ایم ایف کا قرضہ نرم شرائط پر ملنا ممکن ہو گا، پوری نہیں ہو سکی ہیں۔ ان سطور کی اشاعت تک اتوار کو مزید بات چیت کے نتائج بھی سامنے آ چکے ہوں گے اور وزیراعظم کے دورے کے نتیجے میں متحدہ عرب امارات سے متوقع تعاون کا بھی کچھ اندازہ ہو گیا ہو گا لیکن بظاہر آئی ایم ایف کی شرائط میں کسی قابلِ لحاظ نرمی کا امکان کم ہی دکھائی دیتا ہے جبکہ ان شرائط کی تکمیل کی صورت میں ٹیکسوں کی مدات اور شرحوں نیز ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ اور اس کے نتیجے میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان یقینی دکھائی دیتا ہے جس سے نچلے اور متوسط طبقوں کے لیے زندگی مزید دشوار ہو جائے گی۔ اس صورتِ حال میں ضروری ہے کہ ہمارے معاشی حکمت کار نہ خود کسی طرح کی خوش فہمی کا شکار ہوں اور نہ قوم کو ایسی تسلیاں دیں جو حقیقت نہ بن سکتی ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ قوم کے بہترین معاشی دماغ یکجا ہو کر غور و خوض کریں اور ایسے اقدامات تجویز کریں جو کم سے کم وقت میں معاشی استحکام اور عام آدمی کے شب و روز کو مزید تلخ ہونے سے بچانے کا ذریعہ بن سکیں۔ وفاقی حکومت کی تشکیل کردہ اقتصادی مشاورتی کونسل اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے اور وزیر خزانہ کے زیرِ صدارت گزشتہ روز کونسل کے ایک ذیلی گروپ کا اجلاس ہوا بھی ہے، تاہم مشاورت کے دائرے کو وسیع کرکے درپیش معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ممکنہ طور پر بہتر راستے تلاش کیے جا سکتے ہیں۔