پاکستان کی آبادی پر ایک اہم سیمینار

November 19, 2018

سوشل پالیسی اور ڈویلپمنٹ سینٹر (SPDC)نے گزشتہ دنوں کراچی کے مقامی ہوٹل میں مردم شماری 2017ء پر ایک اہم سیمینار منعقد کیا جس میں SPDCکی منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر خالدہ غوث نے مجھے خصوصی طور پر بطور اسپیکر مدعو کیا تھا۔ میرے علاوہ دیگر شرکاء میں سینیٹر تاج حیدر، ماہر تعلیم شہناز وزیر علی اور مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی شامل تھے۔ سمینار میں ممتاز ماہر تعلیم مہتاب عسکری نے مردم شماری 2017ء پر ایک رپورٹ پیش کی جس کی اہم سفارشات آج میں اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔

کسی بھی ملک کی آبادی کا تعین مردم شماری سے کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی 1998ء کی رپورٹ میں مردم شماری وہ ڈیٹا ہے جس سے کسی ملک کی آبادی کا شمار کرکے عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ ماضی میں زیادہ آبادی ایک بوجھ سمجھی جاتی تھی لیکن اب زیادہ آبادی والے ممالک دنیا میں بڑی مارکیٹ والے ملک کہلاتےہیں اور سرمایہ کار ان ممالک کو پرکشش سمجھتے ہیں۔ چین اور بھارت سرمایہ کاروں کیلئے خطے کی بڑی مارکیٹ ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی 60فیصد نوجوان افرادی قوت بھی سرمایہ کاروں کیلئے پرکشش ہے اور ہمیں ان نوجوانوں کو پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت دے کر سرمایہ کاروں کو موقع فراہم کرنا چاہئے۔ پاکستان میں مردم شماری کا معاملہ ہمیشہ سے متنازع رہا ہے۔ ملک میں 2017ء سے قبل آخری مردم شماری 19سال پہلے 1998ء میں کروائی گئی تھی جبکہ پاکستان کے آئین کے مطابق حکومت ہر 10سال بعد مردم شماری کرانے کی پابند ہے لیکن گزشتہ حکومتیں کسی نہ کسی بہانے مردم شماری پر تاخیری حربے اختیار کرتی رہی ہیں اور آخرکار سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی اور جسٹس عظمت سعید نے از خود نوٹس لیتے ہوئے حکومت کو مردم شماری کرانے کا پابند کیا جس کے نتیجے میں 2017ء میں مردم شماری ہوئی۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے اب تک ملک میں صرف 6بار 1951ء، 1961ء، 1972ء، 1981ء، 1998ء اور 2017ء میں مردم شماری کروائی جا سکی ہے۔ پاکستان کی آبادی تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔ پاپولیشن کونسل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ کوئی بھی ملک اْس وقت تک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا جب تک حکومت کو ملک کی آبادی کے صحیح اعداد و شمار کا علم نہ ہو۔ مردم شماری کے تحت ملکی آبادی کے تعین کے ذریعے آپ اپنے معاشرے کے مسائل کی نشاندہی کرکے انہیں حل کرنے کیلئے اپنے وسائل کے مطابق موثر حکمت عملی مرتب کرتے ہیں۔ SPDCکی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے آزاد ہونے کے بعد آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ 1951ء میں پاکستان کی آبادی 33.78ملین نفوس پر مشتمل تھی، 1961ء میں 2.5فیصد اضافے کے بعد یہ 42.88ملین ہو گئی، 1972ء میں 3.7فیصد اضافے سے 65.31ملین، 1981ء میں 3.1فیصد اضافے سے 84.25ملین، 1998ء میں 2.7فیصد اضافے سے 132.35ملین اور 2017ء میں 2.4فیصد اضافے سے 207.77ملین تک پہنچ گئی۔ خطے میں آبادی کے اضافے کا موازنہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ 2016ء میں بنگلہ دیش کی آبادی میں اضافہ 1.4فیصد، بھارت 1.1فیصد، ایران 1.3فیصد، نیپال 1.3فیصد اور پاکستان 2.1فیصد ہے یعنی ہماری آبادی میں اضافہ خطے میں سب سے زیادہ ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی 207.77ملین جس میں پنجاب کی آبادی 110ملین، سندھ کی 48ملین، کے پی کی 31ملین، بلوچستان کی 12ملین، فاٹا کی 5ملین اور اسلام آباد کی 2ملین ہے۔

1998ء سے 2017ء تک‘ 19سالوں کے دوران ملک میں سب سے زیادہ آبادی میں اضافہ اسلام آباد، دوسرے نمبر پر بلوچستان، تیسرے نمبر پر کے پی، چوتھے نمبر پر فاٹا، پانچویں نمبر پر سندھ اور چھٹے نمبر پر پنجاب میں ہوا۔ پاکستان کے 10بڑے شہروں میں سب سے زیادہ آبادی کراچی 14.91ملین، دوسرے نمبر پر لاہور 11.13ملین، تیسرے نمبر پر فیصل آباد 3.2ملین، چوتھے نمبر پر راولپنڈی 2.1ملین، پانچویں نمبر پر گوجرانوالہ 2.03ملین، چھٹے نمبر پر پشاور 1.97ملین، ساتویں نمبر پر ملتان 1.87ملین، آٹھویں نمبر پر حیدر آباد 1.73ملین، نویں نمبر پر اسلام آباد 1.01ملین اور دسویں نمبر پر کوئٹہ کی آبادی 1ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ اس عرصے میں آبادی میں سب سے زیادہ اضافہ لاہور اور سب سے کم راولپنڈی میں ہوا۔ ملک کی آبادی میں سب سے زیادہ حصہ 19.7فیصد کراچی کا ہے۔ 2017ء کی مردم شماری کے عبوری نتائج پر دسمبر 2017ء میں سندھ اور بلوچستان نے مشترکہ مفادات کونسل (CCI) میں اپنے تحفظات پیش کئے تھے کہ مردم شماری میں Cross Validationکا عالمی معیار استعمال نہیں کیا گیا لہٰذا مردم شماری کے نتائج قابل قبول نہیں۔ خانہ شماری کے مطابق سندھ کی آبادی کا تخمینہ 5کروڑ 50 لاکھ لگایا گیا جبکہ نقل مکانی کے تحت سالانہ اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے آبادی کا تخمینہ 4کروڑ 20لاکھ لگایا گیا، اس طرح خانہ شماری کے تخمینے میں ایک کروڑ 30لاکھ افراد کے فرق نے اعداد و شمار کو متنازع بنا دیا جبکہ بلوچستان کے اعداد و شمار میں بھی اسی طرح کے تضادات پائے گئے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت مردم شماری کے فیصلے کی منظوری مشترکہ مفادات کونسل سے لی جاتی ہے چنانچہ جب کونسل کے اجلاس میں خانہ شماری کے نتائج پیش کئے گئے تو اعداد و شمار پر سندھ اور بلوچستان نے اپنے تحفظات پیش کئے جس سے تنازعات نے جنم لیا اور مشترکہ مفادات کونسل نے مردم شماری کا فیصلہ ملتوی کر دیا۔ اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ ملک بھر میں مختلف آبادیوں کے بلاکس سے 5فیصد سیمپل مردم شماری کرائی جائے گی جس کیلئے Censusکمیشن تشکیل دیا گیا تھا جس کی میٹنگ میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ 2017ء کی مردم شماری میں کئی نقائص سامنے آئے ہیں جس کیلئے ایک غیر جانبدارانہ اور آزادانہ تھرڈ پارٹی Validationکرایا جائے لیکن اس پر اب تک عملدرآمد نہیں کیا جا سکا۔

2017ء کی مردم شماری کے نتائج کا حتمی اعلان نہ ہونے کی وجہ سے صوبوں اور مرکز میں پالیسی پلاننگ تعطل کا شکار ہے جس کی وجہ سے موثر طریقے سے صوبوں کی منصوبہ بندی اور ان کے مسائل کے حل کیلئے موثر حکمت عملی تیار نہیں کی جا سکی ہے۔ مردم شماری کے حتمی نتائج پر چاروں صوبوں کی مشترکہ مفادات کونسل (CCI) میں اتفاق ہونا نہایت ضروری ہے ۔ میری حکومت سے درخواست ہے کہ وہ اس اہم مسئلے پر CCI کے تشکیل دیئے گئے کمیشن کی سفارشات پر جلد از جلد عملدرآمد کروا کے مردم شماری 2017ء کے حتمی سرکاری نتائج کا اعلان کرے تاکہ چاروں صوبے موثر طریقے سے اپنے مسائل کو حل کرنے کی منصوبہ بندی کر سکیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)