تاریخی شوشے

November 27, 2018

خیال تھا کہ آج سیاست کو تختہ مشق بنائوں گا، اگرچہ سیاست پہ لکھنے کو جی نہیں چاہتا۔ پچاس سے زیادہ ٹی وی چینلز اور بے شمار اخباری کالم سیاسی تجزیوں سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ دوسری طرف صف بندی بہت واضح ہے۔ کون کیا کہے گا، کیا لکھے گا، پڑھنے والی آنکھوں اور سننے والے کانوں پر یہ حقیقت اچھی طرح آشکار ہوچکی ہے، جس ملک میں یوٹرن پر سینکڑوں پروگرام کردئیے جائیں اور سینکڑوں کالم لکھ دئیے جائیں اس ملک کی سیاست کس قدر بے جان اور تجزیہ نگار کتنے فارغ ہوںگے!! اس سے قبل کہ سیاست پہ قلم ا ٹھاتا، ایک معروف مصنف، معلم اور محقق کی کتابیں تشریف لے آئیں۔ وہ مصنف ہیں، پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم، ازراہ تجسس ان کی ایک کتاب’’فکر عمیق‘‘ کھولی تو چودہ طبق روشن ہوگئے۔ یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم نہ تحقیق کرتے ہیں نہ محنت، نتیجہ یہ کہ ہم جوان نسل کی عام طور پر غلط ا نفارمیشن سے’’ذہنی تربیت‘‘ کررہے ہیں۔ اس سازشی پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر جو بات ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے لکھی ہے وہی بات مجھ سے چند برس قبل ایک ممتاز ماہر تعلیم اور ریٹائرڈ وائس چانسلر نے کہی تو میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔اتفاق ہے کہ میں نے’’فکر ِ عمیق‘‘ کھولی تو صفحہ نمبر 139میرے سامنے تھا جس پر لکھا تھا’’ہمارے پیارے ملک پاکستان کا ترانہ پاک سرزمین شادباد ہے......اس ترانے سے پہلے بانی پاکستان کی خواہش کے مطابق ایک ہندو شاعر جگن ناتھ آزاد نے لاہور میں 9اگست 1947کو ہمارے ملک کا ترانہ لکھا جسے قائد اعظم نے منظور کیا۔ اٹھارہ ماہ تک ریڈیو پاکستان پر یہ ترانہ بجتا رہا۔‘‘ میری تحقیق کے مطابق یہ اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے جس کی تردید اور ابطال کے لئے میں نے ایک ماہ تحقیق کی اور پھر جنگ کے علاوہ کئی اخبارات و رسائل میں مضامین لکھے تاکہ میری آواز ہر سو پہنچ جائے۔ ایسا گمراہ کن پروپیگنڈہ پڑھ کر میں اکثر سوچتا ہوں کہ جھوٹ اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ اسے سچ کا رستمِ زمان گاما بھی پچھاڑ نہیں سکتا۔ تحقیق سے ثابت ہوچکا کہ نہ71سالہ عظیم لیڈر قائد اعظم لاہور سے چھپنے والے پاکستان مخالف اخبار جئے ہند سے منسلک 28،29سالہ جگن ناتھ آزاد کے نام سے واقف تھے نہ کبھی اس سے ترانہ لکھوایا اور نہ ہی جگن ناتھ آزاد کا ترانہ کبھی ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔ تحقیق کی تفصیل میری کتاب’’ پاکستان، میری محبت‘‘ میں دی گئی ہے لیکن چند نمایاں نقات درج ذیل ہیں۔

’’قائد اعظمؒ سرتاپا قانونی ا ور آئینی شخصیت تھے۔ اس لئے یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ قائد اعظم کسی کو ترانہ لکھنے کے لئے کہیں اور پھر کابینہ، حکومت یا ماہرین کی رائے لئے بغیر اسے خود ہی آمرانہ انداز میں منظور کردیں جبکہ ان کا اردو، فارسی زبان اور اردو شاعری سے واجبی سا تعلق تھا۔

سرکاری ریکارڈ چھان مارا مگر آزاد کے ترانے کا سرکاری ریکارڈ میں کہیں ذکر تک نہیں۔ مزید تحقیق اور تصدیق کے لئے میں نے قائد اعظم کے اے ڈی سی سے رابطہ کیا جو سات اگست 1947کو قائد اعظم کے ساتھ کراچی اترے اور ان کی وفات تک ساتھ رہے۔ اے ڈی سی جناب محترم کیپٹن عطا ربانی (مرحوم) سے رابطہ کیا تو بڑا واضح جواب ملا کہ جگن ناتھ آزاد نامی شخص نہ کبھی قائد اعظم سے ملا نہ میں نے کبھی ان سے یہ نام سنا۔ ریڈیو پاکستان کے آرکائیو کو کھنگالا مگر آزاد کے ترانے کا کہیں سراغ نہ پایا۔ ریڈیو پاکستان کے سینئر افسران سے رابطہ کیا تو انہوں نے تحقیق کے بعد حلفیہ بیان دے دیا کہ جگن کا کوئی ترانہ ریڈیو پاکستان سے کبھی نشر نہیں ہوا۔15/ 14اگست 1947کی نصف شب آزادی کے اعلان کے بعد پہلا ملی نغمہ احمد ندیم قاسمی کا نشر ہوا اور پھر مولانا ظفر علی خان کا۔ مختصر یہ کہ جگن ناتھ آزاد کے ترانے کا قصہ محض جھوٹا افسانہ اور شوشہ ہے جسے قائد ا عظم کو سیکولر ثابت کرنے والوں نے محنت سے گھڑا اور پھیلایا اور بظاہر کامیاب بھی رہے۔یوٹرن پر بے معنی بحث چھڑی تو دانشوروں کی دانشوری کے پیمانے چھلک اٹھے جس کے کچھ چھینٹے قائد اعظم پر بھی پڑے۔ فکری ارتقاء، سیاسی عمل اور تاریخ کی منطق سے بےخبر لکھاریوں نے قائد اعظم کے سیاسی سفر میں بھی یوٹرن ڈھونڈھ لیا کہ وہ شروع میں مسلم ہندو اتحاد کے حامی تھے اور بعدازاں مسلمانوں کی علیحدگی کے پیامبر بن گئے۔ یہ وہی بات ہے کہ جوانی میں علامہ اقبال ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ جیسے ترانے لکھتے تھے لیکن بعدازاں تصورِ پاکستان کے مصور بن گئے۔ شاید یہ حضرات فکری ارتقاء کا شعور نہیں رکھتے۔ ان کو قائد اعظم کے الفاظ میں ہی جواب دیا جاسکتا ہے۔ ایک بار ایک ہندو کارکن نے قائد اعظم سے پوچھا تھا کہ آپ تو ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے اب مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن مانگ رہے ہیں۔ قائد کا جواب تھا’’ کبھی میں ہائی اسکول میں بھی پڑھتا تھا‘‘۔میرے دوست حفیظ اللہ نیازی نوٹ فرمالیں۔

تیسرا تاریخی شوشہ جنگ کے ایک فاضل کالم نگار کا معصوم سا فقرہ تھا جس نے تحریک پاکستان کے طالبعلموں کو چونکا دیا۔ انہوں نے لکھا کہ1945-46کے انتخابات میں مسلمانوں کو یہ علم نہیں تھا کہ وہ پاکستان کو ووٹ دے رہے ہیں یا متحدہ ہندوستان کو۔ تحریک پاکستان اور قائد اعظم پر لکھی گئی ہزاروں کتابیں گواہی دیتی ہیں کہ یہ انتخابات حصول پاکستان کے ایشو پر لڑے گئے اور ہندوستان کے بچے بچے کو اس بات کا پورا ادراک تھا۔ مسلم لیگ کے کارکن ہندوستان بھر میں جلوس نکالتے اور گلیوں محلوں میں یہ نعرے لگاتے تھے ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘۔ ’’پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الااللہ۔‘‘ علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ اور مسلم ا سٹوڈنٹس فیڈریشن کے طلبہ ملک کے کونے کونے میں پاکستان کا پیغام لے کر پھیل گئے تھے۔ قائد اعظم نے ملک کے طوفانی دورے کئے اور اپنی تقاریر میں واضح کیا کہ یہ انتخابات پاکستان کے مقدر کا فیصلہ کریں گے۔ وہ مسلم لیگ جس نے 1937کے انتخابات میں مسلمان ووٹوں کے 7فیصد ووٹ حاصل کئے تھے پاکستان کا نعرہ بلند کرکے 75فیصد ووٹ لے گئی۔ ان انتخابات میں کامیاب ہونے والے اراکینِ صوبائی اسمبلی اور مرکزی اسمبلی کا کنونشن اپریل 1946 میں دہلی میں ہوا جس میں منتخب اراکین نے قرارداد پاس کی کہ وہ حصولِ پاکستان کے لئے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ 72سال بعد اس طرح کی بےبنیاد بات لکھنا شوشہ نہیں تو اور کیا ہے؟