دو برس میں تیل و گیس کی پیداوار میں خود کفیل ہوسکتے ہیں،ڈاکٹر رضی الدین رضی

December 09, 2018

میزبان :ارشد عزیز ملک، پشاور

انٹرویو :محمد سلمان…عکاسی :فرمان اللہ جان

تیل و گیس کے شعبے کے ماہر، ڈاکٹر رضی الدّین رضی کا تعلق خیبر پختون خوا کے ضلع نوشہرہ کے علاقے، امان گڑھ سے ہے۔ اُنہوں نے پبّی ہائی اسکول سے میٹرک اور ایڈورڈز کالج، پشاور سے ایف ایس سی کرنے کے بعد 1974ء میں انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔1975ءمیں ایم ایس کے لیے امریکا گئے اور وہیں سے پی ایچ ڈی بھی کیا۔ امریکا میں قیام کے دوران انہیں پاور سیکٹر میں ملازمت کی پیش کش ہوئی، جسے انہوں نے قبول کر لیا، جب کہ اسی کے ساتھ ہی اپنے ادارے کے تعاون سے ایم بی اے بھی کیا۔ ڈاکٹر رضی الدّین رضی پاکستان میں انٹرنیشنل پاور اینڈ انرجی کے مُشیر، پیسکو بورڈ کے ڈائریکٹر، خیبر پختون خوا آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رُکن، این ایل سی انرجی ڈیولپمنٹ کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو، نیشنل ریفائنری لمیٹڈ اینڈ اٹک ریفائنری لمیٹڈ کے مُشیر، او جی ڈی سی ایل کے منیجنگ ڈائریکٹر، اٹک ریفائنری لمیٹڈ کے سی ای او، انرجی وِنگ پلاننگ کمیشن کے سربراہ اور خیبر پختون خوا آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ کے سی ای او کے طور پر فرائض انجام دینے کے علاوہ سعودی عرب کے رائل کمیشن میں تیکنیکی مُشیر اور چیف اکنامسٹ اور امریکا کے پاور اینڈ گیس سیکٹر میں سینئر پلاننگ انجینئر کے طور پر خدمات انجام دے چُکے ہیں، جب کہ انہوں نے سنگاپور، ملائیشیا اور تھائی لینڈ کی حکومتوں کو کول اور پاور پلانٹس سے متعلق رہنمائی بھی فراہم کی۔ گزشتہ دِنوں صوبہ خیبر پختون خوا میں تیل و گیس کے ذخائر کی پیداوار کےحوالے سے ہماری ان سے خصوصی گفتگو ہوئی، جو نذرِ قارئین ہے۔

س :خیبر پختون خوا میں تیل و گیس کے کتنے ذخائر ہیں اور ان کی پیداوار کتنی ہے؟ نیز، اس پیداوار کو مزید کتنا بڑھایا جا سکتا ہے؟

ج: 2014ءمیں جب مَیں نے کے پی او جی ڈی سی ایل (خیبر پختون خواآئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ) کی ذمّے داری سنبھالی، تو تیل کی پیداوار 29ہزار بیرلز اور گیس کی 300مکعب فٹ یومیہ تھی، جب کہ ایل پی جی کی پیداوار صفر تھی۔تاہم، 2017ءمیں تیل کی پیداوار بڑھ کر 54ہزار بیرلز، گیس کی 443مکعب فٹ اور ایل پی جی کی 660ٹن تک پہنچ گئی۔ اس وقت صوبے میں تیل و گیس کے نئے ذخائر کی تلاش اور پیداوار بڑھانے کے لیے کویت پیٹرولیم کارپوریشن جیسی دُنیا کی بڑی کمپنی سرمایہ کاری کر رہی ہے اور اس نے اس مقصد کے لیے 1.5ارب روپے صَرف کیے ہیں۔ مَیں یہاں یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ 2014ءمیں تیل و گیس کے 21بلاکس میں سے3پر کام ہو رہا تھا، جب کہ اس وقت ان تمام بلاکس پر کام ہو رہا ہے اور 7نئے بلاکس بھی سامنے آئے ہیں۔ خیبر پختون خوا تیل و گیس کی دولت سے مالا مال صوبہ ہےاور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت ہمارے صوبے میں 2.2ارب بیرلز خام تیل پایا جاتا ہے اور ایک بیرل کی قیمت 50ڈالرز ہے، جب کہ 46ٹریلین مکعب فٹ گیس موجود ہے۔

س :تیل و گیس کے نئے ذخائر کی تلاش کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے مدد لی جا رہی ہے یا نہیں ؟

ج :جی ہاں۔ کے پی او جی ڈی سی ایل نے تیل و گیس کے نئے ذخائر کی تلاش کے لیے 3عدد جدید سافٹ ویئرز خریدے اور ایک سافٹ ویئر کی قیمت 3.5کروڑ روپے ہے۔ ان سافٹ ویئرز کی قدر و قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تیل و گیس کے ذخائر تلاش کرنے والی جن کمپنیز کے پاس یہ سافٹ ویئرز موجود نہیں، انہیں مستند تسلیم نہیں کیا جاتا۔ مَیں یہاں ایک واقعہ سُنانا چاہتا ہوں، جس سے آپ کو ان سافٹ ویئرز کی اہمیت کا اندازہ ہو گا۔ مَیں ایک مرتبہ قطر میں تیل و گیس سے متعلق پریزنٹیشن دے رہا تھا۔ اس دوران جب مَیں گیارہویں سلائیڈ پر پہنچا اور ان سافٹ ویئرز کے بارے میں بتانے لگا، تو وہاں موجود افراد نے مُجھے اگلی سلائیڈ دکھانے سے روکتے ہوئے کہا کہ ’’آپ یہ بتائیں کہ ہم نے کتنی سرمایہ کاری کرنی ہے ؟‘‘

س :اس وقت صوبے میں کُل کتنے مقامات پر تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش جاری ہے؟

ج :دِل چسپ اَمر یہ ہے کہ اس وقت خیبر پختون خوا کے بعض مقامات پر تیل سطحِ زمین پہ دکھائی دے رہا ہے اور صوبے بَھر میں 22بلاکس میں او جی ڈی سی ایل اور کویت پٹرولیم کارپویشن سمیت دیگر غیر مُلکی اور مقامی کمپنیز کام کر رہی ہیں۔

س :کیا پاکستان مستقبل قریب میں تیل کی پیداوار میں خود کفیل ہو سکتا ہے؟

ج: میرا ماننا ہے کہ اگر تیل و گیس پیدا کرنے والی وفاقی اور صوبائی کمپنیز کے ایم ڈیز کو ایک ہدف دے کر اُسے ہر صورت پورا کرنے کی ہدایت دی جائے، تو ہمیں زیادہ مقدار میںتیل درآمد کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اسی طرح اگر او جی ڈی سی ایل 2برس میں 400کنوئوں پر کام کرے، تو ہم تیل و گیس کی پیداوار میں مکمل طور پر خود کفیل ہو جائیں گے۔ یوں ہر برس اربوں ڈالرز کی بچت ہو گی ، جس سے مُلک میں نئی صنعتیں قائم ہو ں گی اور عوام کو روزگار ملے گا ۔

س :خیبر پختون خوا سے کتنی مقدار میں تیل و گیس دیگر صوبوں کو فراہم کیا جا رہا ہے؟

ج:اس وقت کے پی کے سے 55فی صد تیل، 20فی صد گیس اور 35فی صد ایل پی جی مُلک کے دیگر حصّوں میں سپلائی کی جا رہی ہے۔ خیبر پختون خوا میں تلاش کے دوران ہر دوسرے کنویں سے تیل و گیس نکلنا شروع ہو جاتی ہے، جب کہ مُلک کے دیگر علاقوں میں 5کنوئوں میں سے ایک بارآورثابت ہوتا ہے۔ سو، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کے پی کے میں تیل و گیس کے سب سے زیادہ ذخائر موجود ہیں۔

س : آج ماضی کے مقابلے میں کے پی کے میں امن و امان کی صُورتِ حال خاصی بہتر ہے، تو غیر مُلکی ماہرین و سرمایہ کار یہاں آنے سے کیوں کتراتے ہیں؟

ج: ماضی میں دہشت گردی کے پے در پے واقعات کی وجہ سے ہمارا صوبہ غیر ملکیوں کے لیے ’’نوگو ایریا‘‘ بن گیا تھا اور 2006ء میں اٹک میں ایک پولش انجینئر کے قتل کی وجہ سے بھی بہت زیادہ رکاوٹیں کھڑی ہوئیں۔ تاہم، امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہونے کے بعد اب غیر مُلکی یہاں سرمایہ کاری میں دِل چسپی لے رہے ہیں۔

س :تیل و گیس کی مَد میں خیبرپختون خوا کو کتنی رائلٹی مل رہی ہے؟

ج: اس وقت صوبے کو تیل و گیس کی مَد میں27ارب رائلٹی مل رہی ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ 2018ء میں کے پی کے میں تیل کی پیداوار 80ہزار بیرلز اور رائلٹی کی رقم 50ارب تک پہنچ جائے گی، لیکن بعض مسائل کی وجہ سے ہمارے یہ اہداف پورے نہ ہو سکے۔ یاد رہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں اونچ نیچ سے رائلٹی میں بھی کمی بیشی واقع ہوتی رہتی ہے۔

س :مستقبل میں صوبے کے کن مقامات پر تیل و گیس کے نئے ذخائرکی تلاش شروع کی جائے گی؟

ج: صوبے میں 8نئے پٹرولیم بلاکس شناخت کر لیے گئے ہیں، جو لکی مروت، نوشہرہ، ڈی آئی خان ایسٹ، ڈی آئی خان ویسٹ، میران، چارسدّہ اور خوشال میں ہیں اور یہاں جلد ہی تیل و گیس کی تلاش شروع کر دی جائے گی۔

س :اب تک کون کون سے ممالک آپ کی مہارت سے مستفید ہو چُکے ہیں؟

ج: سابق صدر، جنرل (ر) پرویز مشرّف نے مُجھے جی ایچ کیو میں ڈی جی، انرجی تعیّنات کیا تھا، جہاں مَیں نے 2برس گزارے۔ اس دوران مُجھے تھر اور بلوچستان کے دُور دراز علاقوں میں تیل و گیس کے نئے ذخائر تلاش کرنے کا موقع ملا۔ جب یہ منصوبہ ختم ہوگیا، تو اس کے بعد مَیں نے بنگلا دیش، سنگا پور، تھائی لینڈ اور ملائیشیا سمیت دیگر ممالک کے حُکّام کے ساتھ کنسلٹنٹ یا مُشیر کے طور پر کام کیا، جنہیں مَیں نے تیل و گیس کی پیداوار سے متعلق رہنما اصول بتائے۔

س: آپ نے غیر ملکی کمپنیز کو خیبرپختون خوا میں سرمایہ کاری کے لیے کیسے راغب کیا؟ نیز، کیا آئل ریفائنریز میں بھی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے؟

ج: دراصل، جب دُنیا کو یہ پتا چلا کہ خیبر پختون خوا میں تیل و گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں، تو غیر مُلکی کمپنیز نے اس شعبے میں سرمایہ کاری شروع کر دی۔ علاوہ ازیں، اب انہوں نے کرک، کوہاٹ اور ڈی آئی خان میں ریفائنریز لگانا بھی شروع کر دی ہیں۔ واضح رہے کہ 40بیرلز کی ایک ریفائنری کی تعمیر پر کم از کم 75ارب روپے لاگت آئے گی اور ایک ریفائنری کی تعمیر میں 3سے4ہزار افراد حصّہ لیں گے، جب کہ ریفائنری کی تکمیل کی صورت میں 500افراد کو روزگار ملے گا۔

س :کسی ایک ادارے سے طویل عرصے تک وابستگی اختیار کرنے کی بہ جائے کئی اداروں میں خدمات انجام دینے کی کیا وجوہ ہیں؟

ج :مَیں جب امریکا سے واپس آیا، تو اس وقت پلاننگ کمیشن کی جانب سے گریڈ 20کی اسامی کے لیے اشتہار دیا گیا تھا۔ مَیں نے اپلائی کیا اور منتخب ہو گیا۔ تاہم، پلاننگ کمیشن میں 4برس تک خدمات انجام دینے کے بعد بجٹ کے معاملے پر میرا انتظامیہ سے اختلاف ہو گیا، جس پر مَیں نے استعفیٰ دے دیا۔ پھر مُجھے سعودی عرب میں Statistical Consultant کے طور پر ملازمت کی پیش کش ہوئی، جہاں مَیں نے 7برس کام کیا۔ 1997ءمیں مُجھے اٹک ریفائنری کا چیف ایگزیکٹو آفیسر تعیّنات کیا گیا اور اس عُہدے پر مَیں نے 8سال تک خدمات سر انجام دیں۔ چُوں کہ مَیں ذاتی منفعت کی بہ جائے اپنے مُلک کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں، اس لیے مفاد پرست عناصر میرے راستے میں رُکاوٹیں کھڑی کرتے رہتے ہیں۔ پھر اس شعبے میں بعض ایسے بااثر گروپس بھی موجود ہیں کہ جو کسی مخلص فرد کو کام نہیں کرنے دیتے، جس کی وجہ سے مَیں بد دل ہو جاتا ہوں۔ خیال رہے کہ کے پی او جی ڈی سی ایل سے مُجھے نوٹس دیے بغیر ہی برطرف کردیا گیا تھا۔

س :آپ نے 2006ء میںتیل درآمد نہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس کا کیا پس منظر ہے؟

ج: 2005ء میں اُس وقت کے صدرِ پاکستان، جنرل (ر) پرویز مشرّف ایک منصوبے کے افتتاح کے لیے اٹک آئے، تو انہوں نے مُجھ سے کہا کہ ’’آپ کل ہی آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ میں ایم ڈی کے طور پر رپورٹ کریں۔‘‘ پھر 24نومبر 2006ء کو مَیں نے اُس وقت کے وزیرِ اعظم، شوکت عزیز کو تحریری طور پر بتایا کہ ’’دسمبر 2010ءکے بعد پاکستان کو تیل درآمد کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔‘‘ مَیں نے ایک برس کی اَن تھک محنت کے بعد معروضی حقائق کی روشنی میں اتنا بڑا دعویٰ کیا تھا۔

اس پر شوکت عزیز نے مُجھے طلب کیا اور حیران ہو کر کہا کہ’’ اگر ایسا ہو گیا، تو یہ ہماری بہت بڑی کام یابی ہو گی۔‘‘ مگر میرے اس دعوے کے چند روز بعد ہی مفاد پرست عناصر مُجھے ایم ڈی کے عُہدے سے ہٹانے کے لیے سرگرم ہو گئے، کیوں کہ اگر ایسا ہو جاتا، تو انہیں ان کا کمیشن ملنا بند ہو جاتا۔ سو، 14اپریل 2006ءکو مُجھے اس عُہدے سے ہٹا دیا گیا، حالاں کہ اگر میری تجاویز پر عمل کیا جاتا، تو پاکستان 2010ءمیں تیل و گیس کی پیداوار میں خود کفیل ہوجاتا۔

س :آپ صوبے میں سرمایہ کاری کی غرض سے پشاور اسٹاک مارکیٹ کے قیام کے لیے بھی سرگرم رہے۔ یہ معاملہ کہاں تک پہنچا؟

ج :خیبر پختون خوا کی ترقّی کے لیے پشاور میں اسٹاک مارکیٹ کا قیام نہایت ضروری ہے اور مَیں2010ءسے پشاور میں اسٹاک مارکیٹ کے قیام کی کوشش کررہا ہوں، لیکن لوگوں کو اس کی اہمیت کا احساس ہی نہیں۔

س :آپ نے کے پی او جی ڈی سی ایل کو اپنے پائوں پر کیسے کھڑا کیا ؟

ج: اگر خلوصِ دل سے محنت کی جائے، تو سب کچھ ممکن ہے۔یہ کمپنی 2013ء میں قائم ہوئی اور 2014ء میں مُجھے اس کا سی ای او مقرّر کیا گیا۔ مَیں اس کمپنی میں بَھرتی ہونے والا پہلا فرد تھا اور اس وقت یہاں کم و بیش 400افراد ملازمت کر رہے ہیں۔ نیز، مُجھے یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ ہم نے 4برس میں تیل اور گیس کی پیداوار کے اعتبار سے خیبر پختون خوا کو مُلک کا سب سے بڑا صوبہ بنایا۔

س :اپنی فیملی کے بارے میں بھی کچھ بتائیے؟

ج: میرے والدین نے 1948ء میں بھارت سے پاکستان ہجرت کی۔ ابتدا میں کراچی میں سکونت اختیار کی اور پھر میرے والد، جو پی آئی ڈی سی میں ملازم تھے، ملازمت کے سلسلے میں نوشہرہ منتقل ہو گئے۔ اب مَیں اسلام آباد میں رہائش پزیر ہوں۔ہم نے اپنا آبائی گھر فروخت کر دیا ہے۔4بہنیں ہیں، جو امریکا، نوشہرہ اور اسلام آباد میں مقیم ہیں۔میری دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ تینوں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور امریکا میں سکونت پزیر ہیں۔