کبھی کبھار آپ بھی رو لیا کریں

December 18, 2012

میری آنکھوں میں عجیب و غریب گڑ بڑ ہو گئی تھی۔ یہ زیادہ پرانا قصہ نہیں ہے،نیا قصہ بھی نہیں ہے۔کچھ قصے نہ نئے ہوتے ہیں اورنہ پرانے ہوتے ہیں۔ کاغذ کے پھولوں کی طرح سدا تازہ ہوتے ہیں۔ کہنے والے کاغذ کے پھولوں کو لاکھ کوسیں اور کہتے پھریں کہ خوشبو آنہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے۔ یہ کہاوت اب پرانی ہو چکی ہے ۔اب تو بات بہت آگے نکل گئی ہے۔کاغذ کی بجائے اب پلاسٹک اور نائیلون کے پھول بننے لگے ہیں۔ رنگ اس قدر خوبصورت کہ اچھے اچھے مالی سر پیٹ لیتے ہیں۔ مارکیٹ میں طرح طرح کے سینٹ دستیاب ہیں۔ آپ اپنی پسند کی خوشبو نائیلون یا کاغذ کے پھولوں پر اسپرے کریں یعنی چھڑکیں اور دن بھر معطر ہوتے رہیں۔ دنیا میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ اصل پر نقل حاوی ہو گیا ہے۔ بٹوارے سے پہلے جب پہلی مرتبہ بناسپتی گھی کے چھوٹے بڑے ڈبے کراچی کی دکانوں پر پہنچے تھے تب گاہک بناسپتی گھی کے ڈبے دیکھ کر منہ پھیر لیتے تھے۔ خالص گھی کے مقابلے میں بہت کم قیمت ہونے کی وجہ سے کم آمدنی والے گاہکوں نے بناسپتی گھی خریدنا شروع کیا۔ بناسپتی گھی کو اس قدر گھٹیا سمجھا جاتا تھا کہ دکاندار اخباروں میں لپیٹ کر بناسپتی گھی کا ڈبہ گاہک کو دیتے اورگاہک کپڑے یا پٹسن کے تھیلے میں چھپا کر بناسپتی کا ڈبہ گھر لے جاتے تھے۔
ان دنوں کراچی میں جھوٹے اور جھانسہ دینے والے کو بناسپتی کہا جاتا تھا۔ جھوٹ بولنے والے کے لئے ایک اور لفظ بھی مروج تھا، بنڈل۔ جب کبھی جھانسہ اور دھوکہ دینے والے کسی شخص کا ذکر نکلتا تھا تو لامحالہ لوگ کہہ اٹھتے تھے ”وہ تو پکا بناسپتی ہے“۔
بناسپتی گھی کو مضر صحت مانا جاتا تھا تب اشتہاری اداروں نے لوگوں کی سوچ سمجھ پر بھرپور دھاوا بول دیا۔ اخباروں اور ریڈیو پر اشتہاروں کی بوچھاڑ کردی۔ اشتہار بنانے والے بڑے چالاک ہوتے ہیں۔ انہوں نے بناسپتی گھی کے فوائد اور تعریف کے پل نہیں باندھے، انہوں نے خالص گھی کی برائیاں ایک ایک کر کے اپنے نپے تلے اشتہاروں میں گنوانا شروع کردیں۔ خالص گھی میں کولسٹرول ہوتا ہے، خالص گھی کھانے سے دل اور دماغ پر چربی چڑھ جاتی ہے، خالص گھی کھانے والے اکثر ہارٹ اٹیک یعنی دل کا دورہ پڑنے سے مرجاتے ہیں، خالص گھی کھانے والے فالج کا شکار ہو جاتے ہیں، خالص گھی کھانے والے والدین کے ہاں بیوقوف اور احمق بچے پیدا ہوتے ہیں۔ اشتہاروں کے تیر ٹھیک ٹھکانے پر لگتے رہے۔ لوگوں نے خالص گھی کھانا چھوڑ دیا اور دھڑا دھڑ کھانے بناسپتی گھی میں پکانے لگے اور دھڑا دھڑ بناسپتی بچے پیدا کرنے لگے۔ اب تو ہر چلتا پھرتا آدمی، گھومتا گھامتا آدمی بناسپتی لگتا ہے۔ چھوٹی بڑی، نئی پرانی گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے لوگ بناسپتی لگتے ہیں۔ دفتروں میں، اداروں میں، کھیتوں میں، کھلیانوں میں، فیکٹریوں میں، کارخانوں میں کام کرنے والے بناسپتی لگتے ہیں۔ عالم معلم، طالب طلباء بناسپتی لگتے ہیں۔ سیاستدان پیک دان، اگالدان، پاندان، اور خاندان بناسپتی لگتے ہیں ۔ صدر ہو یا بوہری بازار ہو، وزیر ہو، مشیر ہو، یا پیر ہو سب بناسپتی لگتے ہیں۔ میں بھی بڑا بناسپتی ہوں۔ کراچی کا قصہ پھر کبھی میں آپ کو سناؤں گا۔ آپ کو یہ بھی بتاؤں گا کہ جس طرح موٹر گاڑیاں رجسٹر ہوتی ہیں اسی طرح کراچی میں سائیکلیں رجسٹر ہوتی تھیں اور ان کو نمبر الاٹ ہوتے تھے۔ سائیکل سوار کے لئے لازمی ہوتا تھا کہ اس کی سائیکل پر ڈائنامو والی لائٹ لگی ہوئی ہو۔ سائیکلوں کے چالان بھی ہوتے تھے!
آج آپ میری آنکھوں کا قصہ سنیے۔ انہی آنکھوں سے میں نے اپنے شہر کراچی کا عروج دیکھا تھا، انہی آنکھوں سے اپنے شہر کا زوال دیکھ رہا ہوں۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے میری آنکھیں سرخ رہنے لگی تھیں۔ صبح ہوتی، شام ہوتی، رات ہوتی آنکھیں یونہی سرخ رہتی تھیں اور عمر یونہی تمام ہوتی تھی۔ میری سرخ آنکھیں دیکھ کر کچھ لوگ مجھے چرسی سمجھتے تھے۔ کچھ لوگ مجھے کالا قصائی سمجھتے تھے جو پانچ سو روپے لیکر آپ کے دشمن کا گلا کاٹ دیتا تھا۔ میری سرخ آنکھیں دیکھ کر کچھ لوگ مجھے ناکام عاشق سمجھتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے میں رات رات بھر جاگتا رہتا تھا اور درد ناک فلمی گانے گا کر لوگوں کا ناک میں دم کرتا تھا، کچھ نیک بندوں کا خیال تھا کہ میں مفت کی پیتا ہوں اس لئے ٹن رہتا ہوں اور میری آنکھیں سرخ رہتی ہیں۔
میں لوگوں کو، خاص طور پر اپنے پڑوسیوں کو مخمصوں میں چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ ویسے بھی مجھے اپنی سرخ آنکھیں اچھی نہیں لگتی تھیں۔ میں نے ایک نامور آفتھامالوجسٹ یعنی آنکھوں کے ماہر ڈاکٹر سے مشورہ کیا۔ مشینوں کی مدد سے معائنہ کرنے کے بعد ڈاکٹر نے کہا ”مجھے تمہاری آنکھوں میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی“۔
میں نے پوچھا ”تو پھر میری آنکھیں سرخ کیوں رہتی ہیں؟“
ڈاکٹر نے پوچھا”تم آخری بار کب روئے تھے؟“ ڈاکٹر کا بے تکا سوال سن کر میں سوچ میں پڑ گیا۔ بہت سوچنے کے باوجود مجھے یاد نہیں آرہا تھا کہ آخری بار زندگی میں کب رویا تھا۔ میں نے کہہ دیا۔ میں جب اس خبیث دنیا میں آیا تھا تب بہت رویا تھا“۔
ڈاکٹر نے تعجب سے میری طرف دیکھا۔ میں نے کہا ”میرا مطلب ہے، میں جب پیدا ہوا تھا تب زار و قطار رویا تھا“۔
ڈاکٹر نے پوچھا ”اس کے بعد تم پھر کبھی نہیں روئے؟“ ”جی“ میں نے کہا ”اس کے بعد میں پھر کبھی نہیں رویا“۔
ڈاکٹر نے پوچھا ”تمہاری ماں زندہ ہے؟“
میں نے کہا ”عرصہ ہوا وہ اللہ کو پیاری ہو گئیں“۔
ڈاکٹر نے پوچھا ”اور والد؟“
میں نے کہا ”وہ بھی اس دنیا میں نہیں رہے“۔
ڈاکٹر نے پوچھا ”تمہاری ساس زندہ ہے؟“
”جب میری کوئی بیوی ہی نہیں ہے تو پھر ساس کہاں سے آئے گی؟ میں نے ڈاکٹر سے پوچھا ”ان سوالوں کا میری سرخ آنکھوں سے کیا تعلق ہے؟“
ڈاکٹر نے کہا ”میں تصدیق کرنا چاہتا ہوں کہ تم آخری بار کب روئے تھے“۔
میں نے پوچھا ”اور رونے کا میری سرخ آنکھوں سے کیا تعلق ہے؟“
دو ہزار روپے فیس کے عوض میں نے ڈاکٹر سے معلوم کر لیا کہ جو لوگ روتے نہیں ہیں ان کی آنکھیں خشک اور کھردری ہونے کے بعد سرخ ہو جاتی ہیں میرا پرابلم یہ ہے کہ مجھے رونا نہیں آتا۔ ایک ستائے ہوئے بزرگ نے مجھے رونے کا نسخہ بتاتے ہوئے اور مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے ’ایک خاتون ایم این اے بے انتہا خوبصورت ہے تم اس سے شادی کر لو وہ تمہیں خون کے آنسو رلا دے گی“۔