ایف بی آر میں اصلاحات

December 05, 2018

میرے نزدیک وزیراعظم عمران خان نے اینکرز کو جو خصوصی انٹرویو دیا ہے اس میں ٹیکس جمع کرنے کے حوالے سے ایک بہت ہی اہم بات کی ہے جس کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی گئی ۔انہوں نے کہاکہ ہم نے ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس پالیسی اور ٹیکس جمع کرنے کو الگ الگ کر دیا ہے، ایف بی آر کا کام ٹیکس اکٹھا کرناہے، پالیسی بنانا کامرس اور خزانہ کا کام ہے۔

ٹیکس کے معاملات میں ایف بی آر کی غلط پالیسیوں سے بہت زیادہ نقصان ہوتا چلا آرہا تھا۔ مئی دوہزار اٹھارہ میں سگریٹ کے شعبے پر خصوصی آڈٹ رپورٹ میں ایف بی آر کی قوانین پر عمل درآمد میں ناکامی کا انکشاف ہوا تھا کہ ایف بی آر کی غلط پالیسی کے سبب 60 ارب روپے کا نقصان ہوا ۔سگریٹ کی تیسری کیٹگری متعارف کرکے سگریٹ پرٹیکس کم کیاگیا۔مگر یہ آڈٹ رپورٹ کہیں فائلوں میں دبا دی گئی ۔

وزیر اطلاعات نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہےکہ ایف بی آر پالیسی سازی کا اختیار واپس لے کرحکومت نے ٹیکس پالیسی بنانے کے لیے نیا بورڈ تشکیل دیا ہے جس میں وزیر خزانہ، وزیرتجارت اور اقتصاد و معاشی ماہرین شامل ہوں گے۔

موجودہ حکومت اس معاملہ میں بہت آگے بڑھ چکی ہے ۔ایف بی آر کو بہتر انداز میں کام کرنے کےلئے بہت سے بین الاقوامی اداروں سے مدد لی گئی ہے ۔پالیسی سازی میں عالمی اداروں میں بڑی مدد کی ہے۔ایف بی آر کی تشکیل نو کا منصوبہ تیار ہو چکا ہے ۔بہت جلد عمل در آمد شروع ہو جائے گا ۔ صرف یہی ایف بی آرکے ادارے PRAL جہاں سب سے زیادہ کرپشن ہوئی ہے اس کے تھرڈ پارٹی آڈٹ کا حکم جاری کردیاگیا۔پچھلی کئی حکومتوں نے اس کے آڈٹ کرانے اعلان کیا مگر کوئی بھی حکومت اس پر عمل درآمد نہ کراسکی۔

برطانیہ کے ترقیاتی ادارےDFID نے اس مقصد کےلئے پاکستان کو اپنی سفارشات کے ساتھ فندنگ بھی فراہم کی ہے۔تقریباً ایک ماہ پہلے برطانوی ٹیکس جمع کرنے والے ادارےادارے ریونیو اینڈ کسٹم اور پاکستانی ادارے ایف بی آر کے درمیان ایم او یو پر دستخط ہو ئے تھے۔ایک ماہ میں ہی اس پر حیرت انگیز اندار میں کام ہو ا جس کے نتائچ سامنے آنے والے ہیں۔ایک معاہدے کے تحت برطانوی حکومتی ادارہ ایف بی آر کو ملٹی نیشنل کمپنیوں سے ٹیکس نکلوانے میں بھی مدد فراہم کرے گا۔

ایچ ایم آر سی پاکستانی ادارے کو عوام کو آگاہی فراہم کرنے میں بھی مدد دے گا اور یہ معاہدہ پاکستان کی ٹیکس ریفارمز میں معاونت کیلئے ڈیپارٹمنٹ آف انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ کی مہم کا حصہ ہے۔عالمی بنک بھی اس سلسلے میں ایف بی آر کی مددکررہا ہےبین الاقوامی معتبر ادارےMckinsey بھی ایف بی آر کی کپسٹی بڑھانے میں پورا پورا ساتھ دے رہا ہے

یہ بڑےبین الاقوامی ادارے، بڑے ٹیکس نادہندگان کی نشاندہی میں ایف بی آر کی مدد کریں گے۔ ہارورڈ یونیورسٹی ‘ لندن سکول آف اکنامکس اور آکسفرڈ کے ماہرین بھی اس کام میں مدد دے رہے ہیں ۔ ایف بی آر کا جونیا بورڈ تشکیل دیا گیا ہے۔اس میں بڑے بڑے ماہرین کو شامل کیا گیا ہے ۔