پاکستان اور بھارت کیلئے فرانس، جرمنی ماڈل

December 16, 2018

کرتار پور راہ داری کی تقریب سنگِ بنیاد کے بعد پاک،بھارت تعلقات کے حوالے سے ایک نئی بحث کا آغاز ہوا ہے۔ وزیرِ اعظم، عمران خان نے اس موقعے پر کہا کہ’’ اگر فرانس اور جرمنی دوست بن سکتے ہیں، تو پاکستان اور بھارت کیوں نہیں‘‘۔ اس سے قبل عمران خان نے اپنی’’ وکٹری اسپیچ‘‘ میں بھی بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کی بات کی تھی۔ اُنہوں نے بات چیت کے ذریعے تمام دیرینہ تنازعات حل کرنے پر زور دیا، بلکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت شروع کرنے کی بھی بات کی۔ پھر اس سے بھی آگے بڑھ کر پیش کش کی کہ’’ اگر بھارت قیامِ امن کے لیے ایک قدم بڑھائے گا، تو ہم دو قدم بڑھائیں گے۔‘‘ اگر پاک، بھارت کشیدگی کا طویل پس منظر ذہن میں رکھا جائے، تو یہ ایک بڑا حوصلہ افزا قدم ہے اور یہ پیش کش بڑی فراخ دِلانہ، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جن پیچیدگیوں میں دونوں مُلک الجھے ہوئے ہیں، کیا اُن میں ایسا قدم عملی طور پر اٹھانا ممکن بھی ہوگا؟ عمران خان نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ’’ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور فوج بھی بھارت سے مذاکرات اور تعلقات معمول پر لانے کے لیے ایک پیج پر ہیں‘‘، لیکن کیا سرحد کے پار بھی یہی صُورتِ حال ہے؟ یہ ایک بنیادی سوال ہے۔ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، جب تک دونوں طرف سیاسی عزم نہ ہو، اس قسم کے قدم اٹھانے بہت دشوار ہوتے ہیں۔ پھر اس کے لیے بڑی بردباری، صبر اور جرأت کی ضرورت ہوتی ہے۔تاہم پاک،بھارت مذاکرات کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ ایک قدم آگے بڑھتا ہے، تو دو قدم پیچھے چلے جاتے ہیں۔

جرمنی اور فرانس کا پاک، بھارت تعلقات میں ذکر کیوں کر آیا؟ کیا واقعی دوستی کا یہ یورپی ماڈل، جنوبی ایشیاء کے اِن ہم سایوں پر لاگو کیا جاسکتا ہے، جو اب تک چار جنگیں لڑ چُکے ہیں، یہاں تک کہ اِن کے ہاں کرکٹ کے میدان کھیل نہیں، جنگ کے میدان سمجھے جاتے ہیں۔نیز، دونوں کے بیچ کشمیر اور پانی جیسے بنیادی مسائل موجود ہیں۔ علاوہ ازیں، جس قسم کا سخت مؤقف سامنے آتا رہتا ہے، کیا وہ امن مذکرات میں معاون ثابت ہوسکتا ہے؟پھر یہ بھی کہ دونوں اپنے مؤقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں، جو دوطرفہ ڈپلومیسی کا بنیادی تقاضا ہے۔ فرانس اور جرمنی اس قسم کی ڈپلومیسی کی بہترین مثال تو ضرور ہیں، لیکن اُسے اپنانا آسان کام نہیں۔اگر یورپ کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے، تو دوسری عالمی جنگ کے اختتام سے پہلے کا زمانہ بدترین جنگ وجدل اور’’ پاور اسٹرگل‘‘ کا تھا۔ ہر طاقت وَر مُلک کی بس یہی خواہش تھی کہ کسی طرح اپنے ہم سایوں کو زیر کرلے اور جہاں تک ہوسکے، اپنی سرحدوں کو وسیع کرلے۔ اٹھارہویں صدی بادشاہت کا زمانہ تھا۔ فرانس اور جرمنی، دونوں ہی طاقت وَر شاہی خاندانوں کی حکم رانی سے گزر رہے تھے۔ نیز، ان دونوں کے درمیان یورپ میں سُپر پاور بننے کے لیے مقابلہ ہو رہا تھا۔ اُس زمانے میں یورپ کی سُپر طاقت کا مطلب، دنیا کی سُپر طاقت تھا۔ اسپین، پرتگال اور سب سے بڑھ کر برطانیہ بھی اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں تھا۔دُور دراز علاقوں پر حملے کر کے اپنی کالونیاں بنانا عام بات تھی۔اسی لیے اُسے’’ نوآبادیات کا دَور‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔1807 ء سے 1887 ء کے درمیان یعنی ستّر سال میں فرانس اور جرمنی نے سات خوف ناک جنگیں لڑیں، جن میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں اور تباہی ہوئی۔ معاہدے ہوتے، لیکن اُنھیں ردّی کے کاغذ کی طرح مَسل کر پھر جنگ شروع کردی جاتی۔ اُس زمانے میں اقوامِ متحدہ تھی اور نہ ہی ریاستوں کی واضح اور متعیّن بین الاقوامی سرحدیں۔ بادشاہوں کی فتح اور شکست ہی اُن کی مملکتوں کی سرحدوں کا پیمانہ تھا۔ جتنا علاقہ فتح کیا، وہی اُس کی ریاست اور وہی اُس کی سرحدیں۔ فاتح مُلک کو یہ حق بھی حاصل تھا کہ وہ مفتوح کو اپنی شرائط کے مطابق سرنگوں کرلے۔ ہاری ہوئی ریاست کے شہری، غلام بنا لیے جاتے۔ فاتح کی مرضی جیسا چاہے، اُن سے سلوک کرے۔ رحم دلی ایک انفرادی صفت تھی، جو باشاہ اور حکم ران کی صوابدید پر ہوتی۔ انسانی حقوق کا کوئی تصوّر تھا اور نہ اس کے لیے دوسرے ممالک میں احتجاج کی کوئی روایت۔ ہاں، اتنا ضرور تھا کہ اگر ملکوں یا بادشاہوں کے درمیان اتحاد ہوجائے، تو پھر وہ متحدہ محاذ بناکر مشترکہ دشمن کے خلاف جنگ کرتے۔ یہی وہ زمانہ تھا، جب فرانس اور جرمنی کے درمیان جنگیں ہوئیں۔ لڑائیوں کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ فرانس اور جرمنی نے نپولین اور بسمارک جیسے آمروں کے بھی دَور دیکھے، جو قوم پرستی کو پرستش کی حدوں سے بھی آگے لے گئے۔ اپنے شہریوں کے سوا سب کم تر اور قابلِ شکست۔ ظاہر ہے کہ اس سوچ کا نتیجہ خون ریز جنگوں کی صُورت ہی میں نکلنا تھا۔

جرمنی اور فرانس کے درمیان 1963ء میں ہونے والے تاریخی معاہدے کا ایک منظر

عالمی جنگوں میں فرانس اور جرمنی کی دشمنی مزید بھیانک شکل اختیار کر گئی۔ پہلی عالمی جنگ میں جرمنی کو سرنڈر کرنا پڑا۔ اُس نے شکست تو تسلیم کر لی، لیکن انتقام کے جذبے کو سرد نہ کر سکا۔ وہی جذبہ، جو مُلکوں اور حکم رانوں کو جنگ کی جانب راغب کرتا ہے۔ اُس نے ہٹلر کے زیرِ کمان پھر تیاری کی اور دوسری جنگِ عظیم کی ہول ناکیوں سے دنیا کو دوچار کردیا۔ جرمنی پھر شکست کھا گیا اور ٹوٹ گیا۔ فرانس اور اُس کے اتحادی جنگ تو جیت گئے، لیکن جنگ کے گھائو اور زخم اتنے گہرے تھے کہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ہلاکتوں اور تباہی کا یہ سلسلہ آخر کب تک جاری رہے گا؟ پھر سیاسی حالات بھی بدل چُکے تھے۔ اب جمہوریت اور عوام کی حکم رانی کا زمانہ آگیا تھا۔ حکم ران پارلیمان کے سامنے جواب دہ ہونے لگے تھے۔ چرچل جنگ کا فاتح تھا، لیکن الیکشن ہار گیا۔ وہ یہ نہیں کہہ سکا کہ’’ فاتح ہوں، حکم رانی میرا حق ہے۔‘‘ دراصل، عوام کو مُلک کی بحالی درکار تھی، وہ تباہی اور جنگ و جدل سے نجات چاہتے تھے۔ اُنھیں بہتر معیارِ زندگی اور شہری سہولتیں درکار تھیں اور یہ سب کچھ، صرف امن ہی سے ممکن تھا۔ یہی وہ جذبہ اور عوامی سوچ تھی، جو جرمنی اور فرانس کے درمیان دوستی کا سبب بنی۔ جرمن اور فرینچ قیادت نے دوسری عالمی جنگ سے جو سبق سیکھا، وہ بڑا سادہ تھا،’’ لڑنے کی بجائے، امن اور باہمی تعاون ہی میں دونوں ملکوں کے شہریوں کی بہتری ہے۔‘‘ اسی سوچ نے فرانس کی قیادت کو مذاکرات کی میز پر بِٹھایا۔ دوستی کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر ’’معاہدہ الیزے‘‘ ہوا، جس نے نفرت کی دیواریں گرادیں۔ یہ معاہدہ ،فرانس اور جرمنی کی پائے دار دوستی کی بنیاد بنا۔1963 ء میں ہونے والے اس معاہدے پر فرانس کے صدر، چارلس ڈیگال اور جرمن چانسلر، کونراڈ آڈینوور نے دست خط کیے۔ فرانس اور جرمنی کی دوستی کی داستان یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس نے دنیا کو ملکوں کے مابین تعاون کا ایسا ماڈل دیا، جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ جی ہاں، یورپی یونین کے قیام کی محرّک بھی جرمن، فرانس دوستی تھی اور اس کی مضبوطی کی ضامن بھی یہی دونوں مُلک ہیں۔ یہ ایک بالکل نیا اور منفرد تصوّر تھا۔ مُلکوں کے درمیان عملاً سرحدیں ختم، شہری نہ صرف ایک دوسرے مُلک میں جاسکتے ہیں بلکہ وہاں رہ سکتے ہیں، ملازمت کرسکتے ہیں، یہاں تک کہ وہاں کے شہریوں کو فراہم کی جانے والی تمام سہولتوں سے فائدہ بھی اٹھاسکتے ہیں۔ اس یونین میں کم زور، غریب مُلک بھی ہیں، تو طاقت وَر اور بے انتہا امیر مُلک بھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جہاں یورپی یونین کی تشکیل میں فرانس اور جرمنی کی دوستی محرّک بنی، وہیں ان کی دوستی کو پائیدار بنانے میں یورپی یونین کا بھی ایک کردار ہے،اسی لیے یہ دوستی چھے عشروں سے زاید کا سفر طے کرچُکی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اور بھارت بھی جرمنی، فرانس ماڈل کی پیروی کر سکتے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک، بھارت تعلقات میں ایک دوسرے سے نفرت، دشمنی اور مخالفت کا عنصر خاصا غالب ہے۔ دونوں کے درمیان جنگیں ہوئیں، مُلک ٹوٹے اور آج بھی ایک دوسرے کے خلاف بے تحاشا توانائیاں صَرف کی جارہی ہیں۔ الزامات کا ایک نہ رُکنے والا سلسلہ ہے۔نیز، اندرونِ مُلک کم زوریوں کو دشمن کے سر ڈال کر اپنی نااہلیت پر پردہ ڈالنے کا بھی رواج ہے، جیسے بھارتی الیکشن میں پاکستان کے خلاف جذبات اُبھارے جا رہے ہیں۔ تاہم، یہ بھی تاریخ کا حصّہ ہے کہ پاکستان اور بھارت میں مذاکرات بھی ہوتے رہے ہیں۔ معاہدے ہوئے اور کئی معاملات کے پُرامن حل بھی تلاش کیے گئے۔ لیاقت نہرو پیکٹ اس کی واضح مثال ہے۔1965 ء میں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ ہوئی، دشمنی عروج پر پہنچی، لیکن آخرکار’’ تاشقند معاہدے‘‘ کے تحت معاملات طے پائے۔ پاکستان کے صدر، جنرل ایّوب خان اور بھارت کے وزیرِ اعظم، لال بہادر شاستری نے معاہدے پر دست خط کیے، جب کہ روس کے وزیرِ اعظم، مسٹر کوسیجن نے ثالث کا کردار ادا کیا۔ پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ روس نے ڈپلومیسی کی زبان میں’’ آنسٹ بروکر‘‘ کا کردار ادا کیا، حالاں کہ اس سے قبل وہ بھارت کا ساتھ دیتا رہا تھا اور کشمیر پر اُسی کے مؤقف کا حامی تھا۔1971 ء کی جنگ کے بعد’’ شملہ معاہدہ‘‘ ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹّو اور اندرا گاندھی اپنے اپنے مُلکوں کے رہنما تھے۔ صُورتِ حال اسی معاہدے کے تحت معمول پر آئی۔ پھر صدر ضیا الحق کے زمانے میں کرکٹ ڈپلومیسی کا ذکر عام ہوا۔ اُس زمانے میں بھارت کے وزیرِ اعظم، راجیو گاندھی تھے۔ پھر بی جے پی کے وزیرِ اعظم، واجپائی بس کے ذریعے امرتسر سے لاہور آئے۔ بڑی اچھی باتیں ہوئیں،’’ اعلانِ لاہور‘‘ سامنے آیا، لیکن کارگل نے سب ختم کر دیا۔ اس کے بعد صدر مشرف، واجپائی اور مَن موہن سنگھ کے ادوار میں’’ کمپوزٹ ڈائیلاگ‘‘ ہوئے، لیکن بے نتیجہ رہے۔ بات چیت بحال کرنے کی ایک کوشش وزیرِ اعظم، نواز شریف اور وزیرِ اعظم، نریندر مودی کے دَور میں ہوئی۔ نواز شریف نے اس کی ابتدا مودی کی حلف برداری میں شرکت سے کی۔ بات بڑھی اور مودی اُن کی ایک خاندانی تقریب میں شرکت کے لیے پاکستان آئے۔ دونوں لیڈرز کے درمیان اوفا، پیرس اور تُرکی میں بھی بات چیت کے دَور ہوئے، لیکن اختلافات کا خاتمہ نہ ہوسکا۔ تاہم، ٹریک ٹو ڈپلومیسی اور مشیروں کی سطح پر بات چیت کا سلسلہ چلتا رہا۔ اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ بارڈر ہاٹ ہونے کے باوجود، دونوں مُمالک کے درمیان رابطے کبھی نہیں ٹوٹے۔ سفارتی تعلقات موجود رہے اور غیر سرکاری سطح پر فن کاروں، دانش وَروں اور ماہرین کی بھی ملاقاتیں جاری رہیں۔ کرکٹ، جو دونوں مُلکوں کے درمیان رابطے کا ایک اچھا ذریعہ ہے، جاری رہی، اگرچہ دونوں کی سرزمین پر میچز نہیں ہوئے،لیکن پھر بھی دوسرے مُلکوں میں میچز ہوتے رہے۔ علاوہ ازیں، سارک تنظیم موجود ہے، جس میں پاکستان اور بھارت کے علاوہ، بنگلا دیش، سری لنکا، بھوٹان، افغانستان اور مالدیپ شامل ہیں۔ اس کے سربراہ اجلاس رُکن ممالک میں ہر دو سال بعد ہوتے رہے ہیں، البتہ گزشتہ سال پاکستان میں ہونے والا اجلاس اختلافات کی وجہ سے نہیں ہوسکا۔خواہ سارک کو کتنی ہی غیر مؤثر تنظیم کہا جائے، لیکن اس میں وہ امکانات موجود ہیں، جن کے ذریعے اِن چھے ملکوں کے درمیان رابطوں میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ خاص طور پر اس پلیٹ فارم سے باہمی تجارت کے فروغ کے مواقع کُھلے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یورپی یونین کی طرح سارک کے رُکن ملکوں کے شہری بھی ماضی میں ایک دوسرے کے قریب رہے ہیں۔ وہ جغرافیائی صورتِ حال، موسم، سیاسی حالات اور تجارت کے معاملات سے بہ خُوبی واقف ہیں۔ اسی لیے، جب اس تنظیم میں حکم ران دل چسپی لینا شروع کرتے ہیں، تو یہ خاصی فعال نظر آتی ہے۔ ویسے بھی اس کے قیام سے اب تک ایک میکنزم بن چُکا ہے، جس کے تحت اس کے ذیلی ادارے رابطوں کو مضبوط کرنے کا کام کرتے ہیں۔

دراصل، پاکستان اور بھارت کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے اور تنازعات کے حل میں یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر فریقین کو یقین ہوجائے کہ باہمی تنازعات کا پُرامن حل سب کے فائدے میں ہے، تو معاملات جلد طے ہوسکیں گے۔ اس ضمن میں نان اسٹیٹ ایکٹرز اور سخت گیر عناصر کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، جن کا کہنا ہے کہ’’ پہلے تنازعات ختم ہوں، پھر رابطے قائم کیے جائے۔‘‘ بہرحال، عمران خان نے مسائل کے حل کے لیے بات چیت کو اولیت دی ہے۔ میز پر آمنے سامنے بیٹھیں گے، تو ہر مسئلے اور معاملے پر بات چیت ہوگی۔ آج نہیں تو کل، کوئی بہتر صُورت نکل ہی آئے گی۔