پبلک اکاؤنٹس کمیٹی:تعطل دور کیجیے

December 11, 2018

جمہوری حکومتوں میں کاروبار مملکت چلانے کیلئے قانون سازی کاکام منتخب پارلیمنٹ کے ذریعے انجام پانا ایسا معاملہ ہے جس پر کسی اختلاف کا تصور بھی محال ہے۔ انتخابات کے بعد حکومت کی تشکیل کا عمل مکمل ہونے پر قومی اسمبلی میں ملکی ضروریات کے مطابق قانون سازی شروع ہوجاتی ہے ۔لیکن پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ قیام حکومت کے تقریباً چار ماہ بعد قومی اسمبلی کا چھٹا اجلاس اس حال میں شروع ہورہا ہے کہ ایک فنانس بل کی منظوری کے سوا قانون سازی کا کوئی کام نہیں ہوسکا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ قانون سازی میں کلیدی کردار ادا کرنے والی تین درجن قائمہ کمیٹیاں جنہیں آئینی طور پر تیس دن کے اندر مکمل ہوجانا چاہیے، اب تک نہیں بن سکی ہیں اور یہ کام اس لیے نہیں ہوا کیونکہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی کا معاملہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کسی طرح طے نہیں ہورہا ۔ اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ جمہوری روایت کے مطابق اس کمیٹی کی سربراہی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو دی جائے بصورت دیگر حزب اختلاف کمیٹیوں کی تشکیل کا بائیکاٹ کرے گی۔ کمیٹیوں کی تشکیل قومی اسمبلی کے اسپیکر کی ذمہ داری ہے اور اسپیکر اسد قیصر اس ضمن میں اپنی سی ہر کوشش کررہے ہیں ۔قومی اسمبلی کے ہر اجلاس میں اپوزیشن لیڈر کی جیل سے شرکت ممکن بنانے کے لیے اسپیکر پروڈکشن آرڈر جاری کرتے ہیں۔ پچھلے ہفتے صحافیوں سے بات چیت میں انہوں نے بتایا تھا کہ کمیٹیوں کے معاملے پر وہ حکومت اور اپوزیشن کے ساتھ رابطے میں ہیں اور امید ہے کہ قومی اسمبلی کے چھٹے اجلاس میں یہ مسئلہ خوش اسلوبی سے حل ہوجائے گا۔ اس اہم آئینی تقاضے کی تکمیل کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لیکر چلنا حکومت کی ذمہ داری ہے لہٰذا وزیر اعظم کو تعطل دور کرنے کے لیے ذاتی طور پر کوشش کرنی چاہئے اور جاری اجلاس میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سمیت تمام مجالس قائمہ کی تشکیل یقینی بنانی چاہئے تاکہ قومی اسمبلی میں قانون سازی کا عمل پوری طرح شروع ہوسکے جس کے بغیر اس ادارے کا وجود بے معنی ہے۔