عوام کب آنکھیںکھولیں گے

December 13, 2018

تحریر:قاری تصورالحق مدنی…برمنگھم
پاکستان کا ہر حکمران اسی دعوے کے ساتھ ایوان اقتدار میں آتا ہے کہ وہ عوام کے حقوق کو بحال کرے گا اور عوام کی ضرورت کی بنیادی چیزوں کو ان کی دسترس میں لائے گا۔ تحریک انصاف کی قیادت نے تو مسلم لیگ ن کی قیادت کو پٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کو عوام دشمنی میں قرار نہیں دیا تھا بلکہ وعدہ بھی کیا تھا کہ اقتدار ملنے کی صورت میں وہ آدھی سے بھی کم قیمت لائیں گے، مگر پٹرول وغیرہ میں وہ اضافہ ہوا جس نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ قیمتوں میں اضافہ کے لیے بہانا یہ تلاش کیا گیا تھا کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ عالمی نرخوں کی وجہ سے عمل میں لایا گیا اب جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تیل کی قیمتوں میں عالمی سطح پر کمی ہوئی ہے تو تحریک انصاف کی حکومت کو عوام ترسی اور عوام دوستی میں تیل کی قیمتوں میںزبردست کمی لانی چاہیے، مگر ابھی تک اس سلسلہ میں کوئی حرکت دیکھنے میں نہیں آئی۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کو جن لوگوں نے عوام دشمن قرار دیا تھا اب خود انہیں عوام دوستی نبھانا چاہیے۔ حکومتی تقاضوں کے تناظر میں اضافہ کا برقرار رکھنا کسی بھی طور درست نہیں۔ پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کے نزدیک پاکستان کے عوام کا محفوظ مستقبل پانی کے ذخیروں سے ہے اور وہ اس کام کو سرانجام دینے کے لیے ڈیموں کی تعمیر میں سرگرداں ہیں۔ چیف جسٹس صاحب کا یہ کام بہت ہی عمدہ بھی ہے اور اعلیٰ بھی ہے لیکن پاکستان کے عوام کی اکثریت برسوں تک اپنے مقدمات میں تاریخوں کے بھگتنے کا فریضہ انجام دیتی ہے لیکن ہمارے نظام انصاف میں کوئی نمایاں تبدیلی تو دیکھنے کو نہیں ملی جو کام سویلین حکومتوں کا تھا اسے نبھانے کی ذمہ داری عدلیہ نے لے لی ہے کیونکہ موجودہ سویلین حکومت خصوصی کرم فرمائوں کی کرم فرمائی کی بدولت ہے۔ لہٰذا انہیں تو عدلیہ کے کام پر کسی بھی طور پر اعتراض نہیں ہوتا تاہم میری عدلیہ کے تمام ذمہ داران سے درخواست ہوگی کہ وہ22کروڑ عوام پر ترس کھاتے ہوئے مقدمات کے نمٹانے کے لیے مدتوں کا تعین فرما دیں۔ نیز عدالتیں سیاسی مقدمات کے لیے بھی تناسب طے کریں۔ کوئی شک نہیں کہ عدالت عالیہ کے بعض فیصلوں سے عوام بھی مستفیض ہوئے، جیسے ٹیلی فون میں ڈالے جانے والے کریڈٹ کی رقم سے بلاجواز کٹوتی تھی مگر چیف جسٹس صاحب کا برطانیہ کے سفر میں اس کٹوتی کا ڈیم کی تعمیر کی غرض سے دوبارہ بحال کرنے کا اشارہ عوام کے لیے پھر سے ایک بوجھ کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔ ملک میں تجاوزات کے خاتمہ کا کارنامہ عوام کے لیے نوید ہے اور اس فیصلہ کو پورے پاکستان میں حتمی طور پر نافذالعمل ہونا چاہیے۔ اسلام آباد میںایوان اقتدار ہے اور اسی ایوان اقتدار میں قومی اسمبلی کے اراکین کے لیے اسمبلی ہاسٹل میں قائم ایک کینٹین بھی ہے۔ مجھے گزشتہ روز ہی وہ فہرست دیکھنے کو ملی جو کینٹین کے ذمہ داران نے جاری کی جس میں3لاکھ کے قریب فقط تنخواہ کے کھاتہ میں وصول کرنے والے’’ مستحقین‘‘ کے لیے سستے داموں کھانے کی چیزوں کا ضروری اہتمام کیا گیا ہے۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت تو ایک وقت کے کھانے کو ترس رہی ہے لیکن حکمرانوں کی طرف سے ملکی مفاد میں مہنگائی کو قبول کرنے کی تلقین مسلسل زمانوں سے سامنے آرہی ہے۔ مگر عوام کے مفاد کے نگہبان سرعام اسمبلی کینٹین میں جن نرخوں سے مستفیض ہورہے ہیں کیا عوام کے حالات سے وہ موافقت رکھ رہے ہیں۔ میرا تو خیال یہ ہے کہ اسمبلی کینٹین میں جو قیمتی چسپاں کی گئی ہیں وہ اولاً تو وصول ہی نہیں کی جاتیں اور اگر وہ وصول بھی کی جاتی ہیں تو بجھے دلوں کے ساتھ کی جاتی ہوں گی کہ وہ معمولی بل کا تقاضہ لاکھوں روپے ماہانہ لینے والے غریبوں سے کیسے وصول کریں۔ عجب طرفہ تماشہ ہے کہ جس عوام کو روزمرہ کی کمائی کا اندازہ ہی نہیں وہ تو مہنگائی کے شکار ہوں لیکن جنہیں گھر بیٹھے بٹھائے تنخواہوں کے ملنے کی نعمت حاصل ہو وہ اسلام آباد میں من پسند کھانوں کو اونے پونے داموں حاصل کریں۔ میری چیف جسٹس صاحب سے خصوصی درخواست ہے کہ وہ قومی خزانہ کو بچائیں اور فی الفور کینٹین کا جائزہ لیں اور اس کے نرخوں کو بازار کے مطابق لائیں تاکہ امرا کو بھی احساس مہنگائی ہو اور وہ بھی عوام کے درد کو محسوس کرسکیں۔ ان حالات میں بھی اگر عوام کی آنکھیں نہیں کھلیں گی تو عوام کی آنکھیں کب کھلیں گی۔