معاشی المیے پر سیاست

December 20, 2012

وطن عزیز میں ٹیکسوں کی بڑے پیمانے پر چوری ہونے دینے، وفاق اور صوبوں کی سطح پر ٹیکسوں میں چھوٹ و مراعات دیتے چلے جانے، کالے دھن کی حوصلہ افزائی کرتے رہنے اور معیشت کو دستاویزی بنانے میں دلچسپی نہ لینے کی وجہ سے قومی خزانے کو 3300/ارب روپے سالانہ (9.05/ارب روپے روزانہ) کا نقصان ہو رہا ہے۔ مالیاتی کرپشن، بدانتظامی، نااہلی اور ریاستی اداروں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے ان اداروں کے نقصانات کا حجم بڑھنے یا منافع میں کمی ہونے سے قومی خزانے کو مزید 1400/ارب روپے سالانہ (3.83/ارب روپے روزانہ) کا نقصان ہو رہا ہے۔ اس طرح قومی خزانے کو ہونے والے مجموعی نقصانات4700/ارب روپے سالانہ (12.88 روپے روزانہ) تک پہنچ گئے ہیں۔ ذاتی منفعت کے لئے نجی بجلی گھروں کو کرائے پرلینے کا جواز پیدا کرنے کے لئے حکومت کا بجلی کے بحران کو سنگین ہونے دینے، انڈر انوائسنگ، اوورانوائسنگ، بینکاری کے شعبے میں اسٹیٹ بینک و حکومت کی سرپرستی اور خود بینکوں کے اپنے مفادات کے لئے غلط کاریاں ہونے دینے، غیر فعال قرضوں کے تیزی سے بڑھنے، نفع و نقصان میں شرکت کی بنیاد پر کھولے گئے کھاتوں کو بینکوں کا اپنے منافع میں شریک نہ کرنے اور قرضوں کو ذاتی مفادات یا سیاسی دباؤ کے تحت اور پارٹنر شپ ایکٹ سے متصادم و انصاف کے تقاضوں کے خلاف 2002ء کے اسٹیٹ بینک کے سرکلر29 کے تحت غلط طریقوں سے معاف کرنے کے مقدمات کی سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت میں برس ہا برس سے سماعت ہی نہ ہونے یا فیصلہ نہ آنے سے بچتوں کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے، قومی خزانے کو نقصانات پہنچ رہے ہیں اور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
کرپشن اور ٹیکس کی چوری و مراعات وغیرہ کی وجہ سے ہونے والے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے حکومت بینکوں سے بے تحاشہ قرضے لے رہی ہے چنانچہ صنعت، تجارت و زراعت کے لئے قرضے نہ ملنے سے معیشت کی شرح نمو سست ہو رہی ہے اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ بینک بچت کھاتے داروں کو 6 فیصد سالانہ سود دے کر بغیر کسی نقصان کا خطرہ مول لئے حکومت کو تقریباً11 فیصد سالانہ شرح سود پر قرضے دے کر خوب منافع کما رہے ہیں۔ حکومت نے اپنی رقوم کم شرح سود پر جمع کرائی ہوئی ہیں جبکہ وہ بینکوں سے اونچی شرح سود پر قرضے بھی لے رہی ہے حالانکہ ان کے تمام کھاتوں کو یکجا کر کے اربوں روپے سالانہ کے نقصانات سے بچا جا سکتا تھا۔کم از کم صرف ان 10 وجوہات کی بنا پر معیشت اور قومی خزانے کو 1400/ارب روپے سالانہ (3.83/ارب روپے روزانہ) کا مزید نقصان ہو رہا ہے۔ اس طرح قومی معیشت اور قومی خزانے کو ہونے والے نقصانات کا حجم 6100/ارب سالانہ (16.71/ارب روزانہ بنتا ہے جس میں ٹیکسوں کی مد میں کم وصولی کے3300/ارب روپے بھی شامل ہیں۔ ٹیکسوں کی کم وصولی کے یہ انتہائی محتاط تخمینے ہیں۔ ٹیکس کے کچھ ماہرین بجا طور پر اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ اگر معیشت کو دستاویزی بنایا جائے اور ٹیکسوں کا شفاف، منصفانہ اور موثر نظام وضع کیا جائے تو ٹیکسوں کی مد میں جنرل سیلز ٹیکس کی شرح16 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کرنے کے باوجود اس مد میں سات ہزار ارب روپے سالانہ سے زائد وصولی کی گنجائش ہے۔ (یعنی 19.18 روپے روزانہ) قومی خزانے اور معیشت کو ہونے والے7.66/ارب روپے کے نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔ انٹلیکچوئل کرپشن سے ہونے والے نقصانات کا مکمل احاطہ بہرحال ممکن نہیں ہے مگر تمام نقصانات کاحجم 26.84/ارب روپے روزانہ بن جاتا ہے۔
1980ء کی دہائی میں ملک میں ترقیاتی اخراجات کی مد میں جی ڈی پی کا اوسطاً 7.3فیصد سالانہ خرچ کیا گیا تھا۔ اب یہ تناسب صرف دو فیصد رہ گیا ہے جس کو واپس 7 فیصد پر لانا ہو گا۔ موجودہ حکومت نے2014-15ء تک تعلیم کے شعبے میں جی ڈی پی کا سات فیصد خرچ کرنے کا عہد کیا تھا۔ صحت کی مد میں جی ڈی پی کا3 فیصد خرچ کیا جانا چاہئے۔ اندازہ ہے کہ موجودہ مالی سال میں ان تینوں شعبوں میں اس تناسب سے جس قدر رقوم خرچ کی جانی چاہئیں ان سے تقریباً 2800/ارب روپے کم خرچ کئے جائیں گے یعنی7.67/ارب روپے روزانہ۔ گزشتہ مالی سال میں ملک کے اوپر قرضوں کے حجم میں2100/ارب روپے کا اضافہ ہوا یعنی5.75/ارب روپے روزانہ ۔ ان دونوں کا مجموعہ4900/ارب روپے ہے یعنی 13.42/ارب روپے روزانہ۔ گزشتہ 18 ماہ میں اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 6000 ملین ڈالر سے زائد کی کمی ہو چکی ہے۔ یہ اعداد و شمار بھی اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کرپشن پر قابو پانا ٹیکسوں کی چوری روکنا، ٹیکسوں کا منصفانہ نظام وضع کرنا اور خود انحصاری کے حصول کے لئے اقدامات اٹھانا پاکستان کی سلامتی کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔ ٹیکسوں کا موجودہ نظام آئین پاکستان کی شق 3، 37، 38 اور 227 سے متصادم ہے اب مقررہ حد سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر انکم ٹیکس موٴثر طریقے سے نافذ اور وصول کرنا ہوگا۔ یہ بھی ازحد ضروری ہے کہ ٹیکس ایمنٹی اسکیم کا اجرا نہ کیا جائے بلکہ ٹیکس حکام سے خفیہ رکھی ہوئی آمدنی سے بنائے ہوئے اثاثوں پر مروجہ قوانین کے تحت 30جون 2013ء سے پہلے2400/ارب روپے سے زائد کی وصولی کو یقینی بنا کر یہ اضافی وسائل حاصل کئے جائیں۔ پاکستان کا ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب9.5 فیصد ہے لیکن اگر کالے دھن کو شامل کیا جائے تو یہ تناسب صرف5.5 فیصد رہ جاتا ہے۔ پاکستان کو ایک سازش کے تحت خود ہمارے اپنے اسٹیٹ ایکٹرز کے تعاون سے آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسوایا گیا تھا۔ اگر تحقیقات کی جائے تو اس کے کردار بے نقاب ہو جائیں گے۔ ہم نے انہی کالموں میں9 دسمبر 2008ء اوراس کے بعد تواتر سے لکھا کہ پاکستان ان قرضوں کو اپنے وسائل سے ادا نہیں کر پائے گا، اب وہ وقت آرہا ہے۔ پاکستان کو اتحادی امدادی فنڈ کی مد میں اب پاکستان کو امریکہ سے مزید4/ارب ڈالر ملنے چاہئیں کیونکہ یہ اخراجات پاکستان کرچکا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس مد میں 688 ملین ڈالر ملیں گے لیکن بقیہ رقم کے متعلق کوئی بات نہیں کی جا رہی ہے۔ اب حکومت کے پاس دو ہی راستے ہیں اول، دہشت گردی کی جنگ میں ”مزید اور کرو“ کا امریکی مطالبہ تسلیم کر کے آئی ایم ایف سے مزید مدد حاصل کر کے2008ء میں کی جانے والی سازش کی تکمیل کر دے یا ٹیکسوں کی مد میں ہماری مندرجہ بالا تجاویز پر عمل کرے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ قانون سازی کرکے حکمرانوں،سیاست دانوں ممبران پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیوں کے ممبران اور سول و ملٹری بیوروکریسی کو پابند کیا جائے کہ وہ 30 دن کے اندر بیرونی ملکوں میں اپنے کھاتے پاکستان میں بینکوں میں منتقل کرا لیں۔
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کا یہ بیان ناقابل فہم ہے کہ کرپشن کا جتنا حجم بتایا جا رہا ہے اتنی تو ملک کی آمدنی ہی نہیں حالانکہ کرپشن اور ٹیکسوں کی چوری اور ٹیکسوں میں دی گئی چھوٹ و مراعات وغیرہ تو بجٹ تخمینوں میں شامل ہی نہیں ہوتیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ کرپشن اور ٹیکسوں کی عدم وصولی کے قومی المیے کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔