معذور کے لیے نماز کا طریقہ کیا ہوتا ہے ؟

December 14, 2018

تفہیم المسائل

معذور کے لیے نماز کا طریقہ

سوال:گھٹنے کی وجہ سے ایک آدمی بیٹھ نہیں سکتا اور سجدہ نہیں کر سکتا وہ کرسی پر بیٹھ کر رکوع کی طرح جھک کر سجدہ کرتا ہے اور التحیات کرسی پر بیٹھ کر پڑھ لیتا ہے مگر وہ قیام بھی کر سکتا ہے اور رکوع بھی کھڑے ہو کر کر سکتا ہے۔ لیکن کیا وہ پوری نماز بیٹھ کر پڑھ سکتا ہے یا جتنی نماز وہ کھڑے ہو کر پڑھ سکتا ہے اس کے لیے وہ کھڑا ہوجائے اور باقی نماز کرسی پر بیٹھ کر پڑھے اور کیا تھکاوٹ یا طبیعت کی خرابی کی وجہ سے کسی وقت وہ پوری نماز بیٹھ کر پڑھنا چاہے تو ایسا کرنے کی اجازت ہے یا نہیں؟(سید محمد علی گیلانی، ملتان )

جواب:ایساشخص جو قیام پر قادرہے، سجدہ نہیں کرسکتا ، اُس کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھے ،اگر زمین پر سر رکھ کر سجدہ نہیں کرسکتا تو حکم یہ ہے کہ وہ اشارے سے سجدہ کرے اور رکوع کی بہ نسبت سجدے کے لئے سر کو تھوڑا زیادہ نیچے جھکائے ۔ایسا معذور شخص اگر کرسی پر بیٹھ کر بھی نماز ادا کرے تو جائز ہے اوراس صورت میں رکوع اور سجود اشارے سے کرے ۔البتہ باجماعت نمازوں میں صفوں کے درمیان کرسی رکھنے سے ’’تسویۃ الصف ‘‘یعنی صف کی برابری کی سنّت اداہوہی نہیں سکتی ۔ ہماری نظر میں جب تک بندہ بیٹھ کر (خواہ التحیات کی وضع میں یا پاؤں دائیں جانب نکال کر یا آلتی پالتی مارکر بیٹھ کر) نماز پڑھ سکتاہو تو کرسی پر نہ پڑھے ،مسجدوں میں کرسیوں پر نماز پڑھنے والے صفوں کے اطراف میں کھڑے ہوں۔تنویرالابصار مع الدرالمختار میں ہے : فَلَوْ قَدَرَ عَلَیْہِ دُونَ السُّجُودِ نُدِبَ إیمَاؤُہٗ قَاعِدًا،ترجمہ:’’ جو شخص قیام پر قادر ہو اور سجدہ پر قادرنہ ہو ،تو بیٹھ کر اشارہ سے نمازپڑھنا مستحب ہے ‘‘۔اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’یعنی صرف قیام پر قادرہویا رکوع کے ساتھ قیام پر قادرہو ،جیساکہ ’’مُنِیَّۃُ الْمُصَلِّی‘‘ میں ہے ۔کیونکہ یہ سجدے کے قریب ہے اور کھڑے ہوکر اشارہ سے نماز پڑھنا بھی جائز ہے جیساکہ ’’البحرالرائق ‘ ‘ میں ہے ۔امام زفر اور اَئمۂ ثلاثہ نے دوسرے قول کوواجب کہاہے ،کیونکہ قیام رکن ہے ،پس اس پر قدرت ہوتے ہوئے اُسے ترک نہیں کیاجائے گا اور ہماری دلیل یہ ہے کہ قیام سجدے کے لیے جھکنے کا ذریعہ ہے اور سجدہ اصل ہے ،کیونکہ یہ قیام کے بغیر بطور عبادت مشروع ہے، جیسے سجدۂ تلاوت اورقیام علیحدہ بطورعبادت مشروع نہیں ،حتّٰی کہ اگرکوئی غیر اللہ کو سجدہ کرے گا تو کافر ہوجائے گا بخلاف قیام کے(کہ غیر اللہ کے لیے قیام سے کفر لازم نہیں آتا) اور جب اصل سے عاجز ہوا تو ذریعہ بھی ساقط ہوگیا جیسے نماز کے ساتھ وضو اورجمعہ کے ساتھ سعی ہے۔ ’’ابنِ ہُمام‘‘ نے جواعتراض کیاہے ،’’شرح المُنیۃ‘‘ میں اس کا جواب دیا ہے ،پھرفرمایا: اگریہ کہاجاتاہے کہ اختلاف سے نکلنے کے لیے اشارہ کرنا افضل ہے تو بھی ایک وجہ بنتی ہے ،لیکن میں نے کوئی عالم نہیں دیکھا جس نے یہ ذکر کیا ہو‘‘۔نیز علامہ علاء الدین حصکفی نے لکھا: ترجمہ:’’اور اسی طرح جس زخمی شخص کے سجدہ کرنے سے اس کے زخم سے خون یا پیپ رِستاہو ، اس کا بھی بیٹھ کر اشارے سے سجدہ کرنا مستحب ہے ‘‘۔ اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:ترجمہ:’’ یعنی اس کے باوجود کہ حکماً سجدے سے عاجز ہونے کی بناپر اُس کا کھڑے ہوکر اشارے سے سجدہ کرنا جائز ہے ،مگر اس کا بیٹھ کر اشارے سے سجدہ کرنا مستحب ہے ،کیونکہ اگروہ سجدہ کرے گا تو کسی قائم مقام کے بغیر طہارت کا فوت ہونا لازم آئے گا اور اگر وہ اشارے سے سجدہ کرے گا تویہ سجدے کے قائم مقام ہوجائے گا ،(حاشیہ ابن عابدین شامی ،جلد3،ص: 153، دمشق)‘‘۔پس آپ اگر کسی بھی طرح سے بیٹھ سکتے ہیںاور بیٹھ کر سجدہ کرسکتے ہیں ،خواہ اَلتّحیّات کی ہیئت میں یا دونوں پاؤں ایک طرف نکال کر یا آلتی پالتی مارکر یا قبلے کی جانب ٹانگیں پھیلاکر ،تو زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھیں ،اشارے سے رکوع اور سجود کریں اوراگر یہ قدرت نہیں ہے تو دونوں صورتیں اختیار کرسکتے ہیں ،کھڑے ہوکر قراء ت کریں ،پھر رکوع کریں اور کرسی پر بیٹھ کر یا کھڑے کھڑے اشارے سے سجدہ کریں اور سجدہ کے لیے رکوع سے زیادہ جھکنا ہوگا ۔