سرکاری ملازمین کی روٹیشن پالیسی کو سست روی کا شکار کر دیا گیا

December 15, 2018

اسلام آباد (انصار عباسی) سیاسی مجبوریوں نے اعلیٰ ترین حکام کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ سرکاری ملازمین کے بین الصوبائی تبادلوں کی پالیسی، جسے روٹیشن پالیسی بھی کہا جاتا ہے، کے معاملے میں سست روی (گو سلو) اختیار کریں۔ روٹیشن پالیسی پر کامیاب عملدرآمد سول بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کرنے کی جانب ایک بڑا قدام ہوگا، یہی بات حکمران جماعت کا سب سے بڑا وعدہ رہا ہے۔ تاہم، اب تک اس پر عمل نہیں ہو سکا۔ حکومت پر سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور صوبوں کا زبردست دبائو ہے کہ پالیسی میں من پسند افسران کیلئے استثنیٰ پیدا کیا جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر اس بات کی اجازت نہیں دی گئی لیکن سست روی کی حکمت عملی اختیار کرنے کی اجازت دی ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے سینئر پولیس افسران کی بڑے تعداد میں تقرریاں و تبادلوں کے دوسرے مرحلے پر عمل نہیں ہو سکے گا اور واضح بھی نہیں کہ ایسا کب ہوگا۔ ذرائع کا اصرار ہے کہ ماضی کے برعکس، تمام تر دبائو اور صوبوں بشمول پنجاب کی مزاحمت کے باوجود موجودہ روٹیشن پالیسی معطل نہیں کی گئی۔ وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ صوبوں کو اپنے اُن افسران کو تبدیل کرنے کیلئے مزید وقت دیا جائے جن کے ٹرانسفر آرڈر پر اب تک عمل نہیں ہو سکا۔ تاہم، بیوروکریسی میں کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ موجودہ پالیسی کا حشر ماضی سے مختلف نہیں ہوگا۔ ایک سینئر بیوروکریٹ کا کہنا ہے کہ ’’سست روی‘‘ کی حکمت عملی کا نتیجہ پالیسی کی معطلی پر منتج ہوگا۔ پی ٹی آئی حکومت آنے کے دو ہفتوں بعد ہی اعلیٰ ترین سطح پر سرکاری ملازمین کی روٹیشن پالیسی میں ترمیم کی گئی تھی اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ہدایت ملی تھی کہ پالیسی پر کسی استثنیٰ کے بغیر عمل کیا جائے۔ اعلیٰ ترین سطح پر روٹیشن پالیسی میں کی جانے والی ترمیم یہ ہے: ’’پی اے ایس / پی ایس پی (پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس / پولیس سروس آف پاکستان) کے گریڈ 21؍ اور اس کے کم کے افسران، جنہوں نے کسی بھی صوبائی حکومت یا وفاقی حکومت میں مسلسل کم از کم 10؍ سال تک خدمات انجام دی ہیں، کو وفاقی حکومت یا دیگر صوبوں میں عوامی مفاد کے تحت ٹرانسفر کیا جا سکتا ہے۔ مسلسل 10؍ سال کے عرصہ کے تعین کیلئے ای اول / استحقاقی رخصت ، رخصت / رخصت برائے تعلیم / او ایس ڈی / تربیت / ڈیپوٹیشن / غیر ملکی تعیناتی کو شامل نہیں کیا جائے گا اور اسے بریک تصور نہیں کیا جائے گا۔ اس پالیسی کے تحت، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے پہلے مرحلے میں 20؍ اور 21؍ گریڈ کے درجنوں سینئر پی اے ایس افسران کے تبادلوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ ان میں اکثر افسران نے نئے علاقوں میں جوائننگ دیدی ہے لیکن کچھ ایسے افسران تھے جنہیں ابھی ان آرڈرز کی تعمیل کرنا ہے۔ پالیسی متعارف کرائے جانے سے قبل ہی یہ فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ پی اے ایس کے سینئر ا فسران میں شامل درجنوں سینئر پولیس افسران کو تبدیل کیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ ٹرانسفر کے پہلے مرحلے کے بعد، کچھ افسران نے روٹیشن پالیسی میں استثنیٰ حاصل کرنے کیلئے صوبائی حکومتوں، سینئر بیوروکریٹس، سیاست دانوں اور طاقتور حلقوں کے ذریعے اعلیٰ ترین سطح پر اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن پر دبائو ڈالنا شروع کر دیا۔ اس سے گزشتہ تین دہائیوں کے طرز عمل کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہر آنے والی حکومت پی اے ایس گروپ (سابقہ ڈی ایم جی گروپ) اور پی ایس پی افسران کیلئے بین الصوبائی ٹرانسفر پالیسی مرتب کرتی ہے لیکن فوجی حکمران پرویز مشرف سمیت کوئی بھی اس پر عمل نہ کروا سکا۔ ہر مرتبہ چند ہی ہفتوں میں پالیسی پر عملدرآمد ناکام بنا دیا جاتا تھا کیونکہ با ا ثر بیوروکریٹس استثنیٰ حاصل کر لیتے تھے کیونکہ وہ اپنی پسند کے صوبے کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔