افریقہ میں خواتین کیلئے قوانین سازی میں سب سے زیادہ پیشرفت کی گئی

December 17, 2018

ویلیناینا رومی

گزشتہ چار سال میں افریقہ نے صنفی امتیازی سلوک سے نمٹنے کیلئے سب سے زیادہ قانونی پیشرفت کی، تاہم او ای سی ڈی کے نئے اعداد وشمار کے مطابق اس خطے اور دنیا بھر میں قوانین اور سماجی اقدار ابھی بھی مساوات میں رکاوٹ ہیں۔

سماجی ادارے اور صنفی اعشاریے ( ایس آئی جی آئی) فرق کو دیکھتے ہیں کہ جب حقوق اور مواقع کی بات آتی ہے تو خواتین اور مردوں کے درمیان قانون سازی، رویوں اور طرزعمل پیدا ہوتے ہیں، او ای سی ڈی کی جانب سے مرتب کردہ نتائج نے انکشاف کیا کہ کچھ ممالک میں پیشرفت کے باوجود 180 ممالک میں بہت سے ممالک میں سیاسی وعدوں اور قانونی اصلاحات نے عورتوں اور لڑکیوں کے لئے حقیقی تبدیلیوں میں تعبیر نہیں کیا جاتا ہے۔

او ای سی ڈی کے سینئر عہدیدار جو آن یرمو نے کہا کہ گزشتہ چند سال سے خواتین کے حقوق کی حمایت میں بے مثال اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اور حقائق کو تس؛لیم کرنے کے طور پر ایک فیصلہ کن اقدام بڑھا ہے، اب وقت ہے کہ صنفی مساوات اور خواتین کی خودمختاری کے بیانات کو عملی کارروائی میں تبدیل کیا جائے۔

ایس آئی جی آئی نے چار اقسام کے صنفی امتیاز کا جائزہ لیا،خاندان میں امتیاز، محدود شہری آزادی، جسمانی سلامتی اور مالیاتی ذرائع تک رسائی۔ یہاں نتائج کے تین حصے ہیں۔

1۔افریقہ نے سب سے زیادہ قانونی پیشرفت کی

او ای سی ڈی کے صنفی ڈویژن کی سربراہ بیتھیل میسیکا نے کہا کہ امتیازی سلوک کے انڈیکس کے چار وسعت کے نزدیک، وہ خطہ جس میں 2014 میں آخری ایس آئی جی آئی رپورٹ کے بعد سب سے زیادہ پیشرفت دیکھی گئی، وہ افریقہ ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ بڑی حد تک قومی قوانین متعارف کرانے کی وجہ سے ہے،جن کا مقصد صنفی امتیاز اور تشدد کو ہدف بنانا ہے۔

2014 سے کینیا،انگولا اور یوگنڈا سمیت 10 افریقی ممالک نے گھریلو تشدد کے خلاف قوانین متعارف کرائے، اور پانچ ممالک نے شادی کی عمر میں اضافہ کے لئے قانون سازی کا اضافہ کیا۔پانچ ممالک نے پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد میں اضافہ کیلئے کوٹا بھی متعارف کرایا۔

بیتھیل میسیکا نے کہا کہ زیادہ تر افریقی ممالک اب رسمی کام کے لئے اجرأت کے ساتھ زچگی کی چھٹی کی ضمانت دی ہے، انہوں نے نشاندہی کی کہ یہ ابھی تک امریکا میں تک میں نہیں ہے۔ امریکا واحد او ای سی ڈی رکن ملک ہے جس نے ایسے قوانین کو منظور نہیں کیا کہ کاروباری ادارے اور کارپوریشنیں اپنے ملازمین کو اجرأت کے ساتھ زچگی کی چھٹیاں دیں۔

بحرین، برونائی، انڈونیشیا۔ پاکستان اور افغانستان سمیت خلیجی ممالک پیچھے رہ گئے ہیں۔ ان میں سے کئی ممالک میں خواتین کو شادی یا وراثت کیلئے مردوں کے مساوی حقوق حاصل نہیں ہیں۔

2۔ تبدیلی کے لئے عملدرآمد اور رویے سست روی کا شکار ہیں

نتائج کے مطابق نئی قانون سازی کو پانانے کے باوجود خواتین کے لئے حالات بہتر بنانے کے لئے، طرز عمل اور رویوں کی تبدیلی میں سست روی تھی۔

بیتھیل میسیکا نے کہا کہ افریقہ میں گھریلو تشدد کی اطلاع دینے والی خواتین کے حصہ میں کمی آئی ہے،تو ان لوگوں کا حصہ جن کا کہنا ہے کہ گھریلو تشدد جائز ہے،ان کے اعداد و شمار ابھی بھی کافی زیادہ ہیں۔

ایس آئی جی آئی کے خلاصہ نتائج کے مطابق کم عمری کی شادی میں بھی کمی آئی۔ 2018 میں دنیا بھر میں 15 سے 19 سال کی عمر کی 16 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال کی عمر سے قبل ہوئی، اس کے مقابلے میں 2012 میں یہ تعداد 19 فیصد تھی۔رپورٹ میں کہا گیا کہ اس رفتار کے حساب سے لڑکیوں کی کم عمری کی شادی کو ختم کرنے میں سو سال کا عرصہ درکار ہوگا۔

بیتھیل میسیکا نے کہا کہ خاندانی حلقہ اثر کی اقدار کو ختم کرنا سب سے مشکل ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں نے ان کی ماؤں،ان کے والد، ان کی دادی، ان کے دادا کے رویوں کو دیکھا ہے اور یہ ان کے ذہنوں میں سرایت کرچکا ہے۔

3۔ جدید معیشتوں میں صنفی امتیازی سلوک برقرار ہے

او ای سی ڈی کے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک میں خواتین کو کم مساوی حقوق حاصل ہیں لیکن ترقی یافتہ معیشتوں میں بھی صنفی امتیاز پایا جاتا ہے۔

امریکا میں اجرأت کے ساتھ زچگی کی چھٹیوں کی ضمانت میں کمی، یا جیسا کہ برطانیہ میں ہے، خواتین اور مردوں کے درمیان گھریلو کام کی غیر مساوی تقسیم اور برطانیہ اور ملازمت پیشہ ماؤں کی زیادہ منفی رائے کی وجہ سے امریکا زیادہ ترہم مرتبہ معیشتوں سے نمبر میں نیچے ہیں ۔

جاپان ابھیبھیایک ویسع روایاتی معاشرہ ہے، اس کے زیادہ تر اقدامات اور رینکس سب سے جدید ممالک کے ساتھ ساتھ ابھرتی ہوئی معیشتوں جیسا کہ جنوبی افریقہ،برازیل اور جنوبی کوریا سے کم ہیں۔

بیتھیل میسیکا نے کہا کہ صنفی امتیاز کو سمجھنے کے لئے ہمیں طریقہ کار تبدیل کرنے کی ضرورت ہے،کیسے ہم صنفی امتیزا کی بنیادی وجوہات کو سمجھتے ہیں سے کیسے ہم نئے داخلے کے پوائنٹس کو تلاش کرتے ہیں،جدید اور ترقی کا تعین۔