اس سمت سمیٹوں تو بکھرتا ہے ادھر سے!

January 06, 2019

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کیا کر رہی ہے اور کیا کرنا چاہتی ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے، جو پاکستان کے ہر شعبے کے لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں۔ کسی کو معلوم ہی نہیں کہ حکومت کی سمت کیا ہے۔ لوگ بے یقینی کی کیفیت میں ہیں۔ اس کا اظہار اس صورت میں ہو رہا ہے کہ ہر قسم کا کاروبار جمود کا شکار ہو گیا ہے۔ لوگوں نے دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنا لی ہے۔ اس کیفیت کا زیادہ عرصے تک برقرار رہنا کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔

سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے اگلے روز ایک ٹی وی انٹرویو میں اس صورتحال کو بہتر طور پر بیان کیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے لوگ شوکت ترین کی بات کو صرف سیاسی بیان سے تعبیر کر کے رد نہیں کر سکتے کیونکہ ملک کے زیادہ تر حلقے ان کی بات کو قرین از حقیقت تصور کرتے ہیں۔ شوکت ترین کا کہنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے پاس کوئی ’’اکنامک روڈ میپ‘‘ نہیں ہے۔ حکومت میں آنے سے قبل ان کے پاس ایک روڈ میپ ہونا چاہئے تھا۔15 نومبر تک معیشت کو بہتر بنانے کی بات کی گئی مگر 15 نومبر بھی گزر گیا اور جنوری شروع ہو گیا مگر حکومت کا کوئی پلان نظر نہیں آ رہا، جس کی وجہ سے لوگوں میں بے یقینی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے کہ حکومت کہاں جا رہی ہے۔ حکومت کو آمدنی پر ٹیکس عائد کرنا تھا لیکن اس نے فائلر اور نان فائلر کا چکر شروع کر دیا۔ رئیل اسٹیٹ سمیت ہر طرح کا بزنس جمود کا شکار ہے۔ ہمارے پاس روڈ میپ ہونا چاہئے تاکہ ہمیں اپنی سمت کا اندازہ ہو سکے۔ سرمایہ کار اچھی خبر کی تلاش میں ہے۔ اگر ہم انہیں کوئی پلان دیتے ہیں تو وہ سرمایہ کاری بھی کریں گے۔ مگر اس وقت ہم لوگ بے سمت ہیں۔ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ ہم کیا کرنے جا رہے ہیں۔

جیسا کہ اوپر عرض کر چکا ہوں کہ شوکت ترین کی بات کوئی سیاسی بیان نہیں ہے۔ اس کی تائید اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار اور ہمارے بزنس مین سرمایہ کاری اور کاروبار کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ یہ بے یقینی صرف اقتصادی شعبے میں نہیں ہے بلکہ لوگ سیاسی طور پر بھی بے یقینی کا شکار ہیں۔ اب تو یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ ملک کس طرف جا رہا ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں کے مستقبل کے بارے میں سوال پیدا ہو گئے ہیں۔ لوگوں کو موجودہ نظام حکومت کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیا گیا ہے کیونکہ یہ باتیں بھی ہو رہی ہیں کہ 18ویں آئینی ترمیم ختم کی جا رہی ہے اور ملک میں وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کی جگہ صدارتی نظام حکومت نافذ کرنے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ’’سی پیک‘‘ کے منصوبوں پر بھی نظر ثانی ہو رہی ہے۔ سی پیک جیسا ’’گیم چینجر‘‘ منصوبہ کسی اور ’’گیم‘‘ کی وجہ سے ’’چینج‘‘ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں نظام حکومت اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے جو سمت متعین ہو گئی تھی، اب شاید اس سمت پر نہیں جا سکے گا۔

یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت100 دنوں کے اندر ہر شعبے میں کایا پلٹ کر دے گی۔ کایا پلٹ تو بہت دور کی بات ہے، قابل ذکر کامیابیوں کی بجائے لوگوں کو پہلے سے زیادہ بحران نظر آتے ہیں۔ اگرچہ معاشی بحران پہلے والے حالات کا تسلسل تھا لیکن پی ٹی آئی حکومت کی اکنامک ٹیم کے بعض فیصلوں سے اس میں شدت پیدا ہوئی۔ ملک کے اندر پولیٹکل پولرائزیشن 1990ء کے عشرے سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ صرف ایک صوبہ سندھ میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نہیں ہے یا حکومت میں اس کا حصہ نہیں ہے۔ وفاقی اور سندھ حکومت کے موجودہ انتہائی خراب تعلقات کی اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں داخلی صورتحال سے نمٹنے کے اب تک ایک فیصلے سے پتا چل گیا کہ سیاسی طور پر تنہا حکومت کمزور ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف تحریک لبیک کے احتجاج کے سامنے حکومت نے پہلے گھٹنے ٹیک دیئے اور پھر ’’ریاست کی رٹ‘‘ کے نام پر پکڑ دھکڑ شروع کر دی۔ ریاست کی رٹ پر تو اس وقت سمجھوتا کر لیا گیا تھا، جب احتجاج کرنے والوں کے ساتھ معاہدہ کیا گیا۔ تحریک انصاف کی حکومت کی ابتدا امریکہ کے ساتھ تعلقات میں مزید کشیدگی سے ہوئی۔ بھارت کا رویہ پہلے سے جارحانہ ہو گیا اور اس نے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کریں۔ پی ٹی آئی حکومت کی خارجہ پالیسی کی بھی ابھی تک کوئی سمت نظر نہیں آئی۔ سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات سے قرضوں کی مد میں ’’امداد‘‘ ضرور ملی لیکن یہ رقم کہاں اور کیسے خرچ کی جائے گی، ابھی تک اس حوالے سے بھی کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آئی۔ صرف یہ کہا جا رہا ہے کہ پیسے آ رہے ہیں۔

عوامی سطح پر صورتحال یہ ہے کہ ملک کی اکثریتی آبادی پہلے سے زیادہ پریشانی اور مشکلات کا شکار ہے۔ ان پریشانیوں اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے لوگوں کو پہلے تحریک انصاف کی حکومت سے امیدیں تھیں، جو اب دم توڑ رہی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ حکومت کو زیادہ وقت نہیں ہوا ہے لیکن اس مختصر وقت میں لوگوں کی امیدیں ختم ہونا تشویشناک ہے۔ اس عرصے میں امیدوں اور توقعات کو برقرار رکھا جا سکتا تھا۔ یہ اس صورت میں ممکن تھا، جب لوگوں کو یہ احساس ہو جاتا کہ حکومت کی کوئی سمت ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بیرونی دنیا میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ سیاسی قوتیں کرپٹ ہیں، پاکستان کے مالیاتی ادارے ’’بلیک اکانومی‘‘ کو آپریٹ کرتے ہیں اور پاکستان کے ریاستی ادارے معاملات کو بہتر بنانے کے نام پر ایک مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ سیاسی پولرائزیشن میں حکومت سیاسی طور پر تنہا ہے۔ ملک سیاسی تصادم کی طرف بڑھ رہا ہے۔ لوگ بے یقینی کا شکار ہیں اور حکومت میں بہتر فیصلوں کی صلاحیت کا فقدان ہے۔ پاکستان اپنے نظام حکومت اور خارجہ پالیسی کا بھی ابھی تک تعین نہیں کر سکا ہے۔ بیرونی دنیا میں اس تاثر کے ساتھ پی ٹی آئی کی حکومت کیسے حالات کا مقابلہ کرے گی؟ یہ سوال بے یقینی میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ پی ٹی آئی والے کہہ سکتے ہیں کہ ’’نماز عشق کی کوئی سمت نہیں ہوتی‘‘ لیکن ملک کی اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ’’اس سمت سمیٹوں تو بکھرتا ہے ادھر سے‘‘۔