ایک شہر دو کہانیاں

December 26, 2012

لاہور سے ساہیوال جاتے ہوئے ابھی میں نے آدھی مسافت ہی طے کی تھی کہ گاوٴں سے میرے بھانجے کا فون آیا کہ ماموں آج آپ اپنا آنا موقف کردیں کیونکہ پڑوس میں ایک قریبی رشتہ دار کے نوجوان بیٹے کی موت واقع ہو گئی ہے۔ میرے لئے یہ خبر کوئی اچنبھا نہیں تھی کیونکہ اب جب بھی میں سال میں ایک دومرتبہ گاوٴں جاتا ہوں تو کئی جواں سال لوگوں کی موت یا خودکشی کا ذکر سنتا ہوں۔ آج سے پچاس سال قبل جب میں اس گاوٴں میں ہائی اسکول تک مقیم رہا تو کسی نوجوان کی موت ایک انہونی سی بات ہوتی تھی۔ تو آخر اس نصف صدی میں کیا ہوا ہے کہ زندگی کے دن بڑھنے کی بجائے کم ہوتے جا رہے ہیں؟
ہمارے بہت سے شہری دانشور فوراً نتیجہ نکالیں گے کہ اس کی وجہ غربت میں اضافہ یا طبی سہولتوں کی نایابی ہے لیکن تاریخی شواہد اس تفسیر کی نفی کرتے ہیں۔ جب میں گاوٴں کا مقیم تھا تو تقریباً ہر گھر گارے سے بنا دکھائی دیتا تھا جب کہ اب تمام رہائشی عمارتیں پکّی اینٹوں کی بنی ہوئی ہیں۔ اس زمانے میں آدھے گاوٴں والوں کے پاوٴں میں جوتا نہیں ہوتا تھا اور اکثریت کے پاس محض ایک جوڑا کپڑے ہوتے تھے۔ اب ہر ایک کے پاوٴں میں جوتا ہے اور متعدد کپڑوں کے جوڑے ہیں۔ تب ایک بائیسکل کا مالک ہونا بڑے فخر کی بات تھی اور آج اسی آبادی میں موٹر سائیکلوں کے علاوہ کئی درجن کاریں بھی ہیں۔ ہر ہاتھ میں سیل فون ہے اور اکثر گھروں میں ٹیلیویژن کے علاوہ انٹرنیٹ تک کی سہولتیں میسر ہیں لہٰذا یہ بات تو طے ہے کہ معاشی ترقی کی رفتار کافی تیز رہی ہے اور غربت میں کافی کمی آئی ہے لیکن خوشحالی اور معیار زندگی ایک دوسرے کی ضد کا نقشہ پیش کر رہے ہیں یعنی معاشرے میں جدید مشینوں کے استعمال کی وجہ سے حالات میں ’مقداری‘ تبدیلی تو آئی ہے لیکن باقی وہ کچھ نہیں ہوا جو کہ ترقی یافتہ معاشروں میں ہوتا ہے۔ ان معاشروں میں معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ کم عمر اور نوجوانوں کی اموات میں کمی آتی ہے اور اوسط عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔ شواہد بتا رہے ہیں کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہو رہا۔پاکستان ارتقاء کی جس منزل سے گزر رہا ہے، برطانیہ بھی ان حالات سے گزر چکا ہے۔ اسی دور کے بارے میں مشہور ناول نگار چارلس ڈکنز نے اپنا مشہور زمانہ ناول ”ایک شہر دو کہانیاں“ کا آغاز اس فقرے سے کیا کہ ”وہ تھے بہترین دن اور وہی تھے بدترین دن“۔ پاکستان کو بھی اشیائے صارفین کے پہلو سے دیکھیں تو یہ بہترین دن ہیں اور اگر جواں سالی میں موت کی آغوش میں گم ہو جانے کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ بدترین دن ہیں۔ گاوٴں بلکہ پورے ملک میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ بتاتا ہے کہ بنیادی طور پر کچھ غلط ہو رہا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ حکومتی اعداد و شمار ہمارے مشاہدے کی نفی کریں لیکن یہ بے معنی ہوں گے۔ پاکستان میں بنیادی شماریات جمع کرنے کا کوئی سائنسی نظام نہیں ہے۔ بنیادی شماریات سے مراد ہے پیدائش، اموات، شادی اور طلاقوں کے اعداد و شمار کو سائنسی طریق کار سے جمع کرنا۔ پاکستان میں یہ نظام بہت ناقص ہے۔ صحت کے معیشت دان ہونے کی حیثیت سے بنیادی شماریات کا تجزیہ کرنے میں میرا دو دہائی کا تجربہ ہے۔ اسی کے پیش نظر میں نے چند سال پہلے گاوٴں کے پیدائش اور اموات کے رجسٹر کا معائنہ کیا تھا۔ہر موت کی وجہ بخار بتائی گئی تھی حالانکہ بخار اپنے آپ میں کوئی بیماری نہیں بلکہ بیماری کی علامت ہے۔المختصر پاکستان میں اموات کی وجوہات کی جانچ پڑتال کرنے کے کیلئے نہ تو مناسب اعداد و شمار میسر ہیں اور نہ ہی ان کے تجزیئے کا کوئی نظام موجود ہے۔ یہ ریاست کی ناکامی کی علامت ہے۔ مغربی معاشروں میں ریاستیں ٹوٹ بھی جائیں، جنگیں ہوں یا قحط سالی بنیادی شماریات کے نظام کو مکمل طور پر تحفظ حاصل دیا جاتا ہے کیونکہ اسی سے معاشروں کی بنیادی جہت کا تعین کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بنیادی شماریات کے سائنسی نظام کی عدم موجودگی میں ہم غیر یقینی اعداد و شمار کی بجائے موجود شواہد سے ہی اس بارے میں کوئی معقول نظریہ پیش کر سکتے ہیں جو یہ بتا سکے کہ خوشحالی کے ساتھ ساتھ اموات میں اضافے کی کیا وجہ ہے۔ مثلاً پچھلے سال ایک نوجوان کی ہارٹ اٹیک سے موت پر ایک خاتون بینکر ہوتے ہوئے نوجوان بیویوں کو مورود الزام ٹھہرا رہی تھی جو گھروں میں بیٹھی شوہروں پر مختلف اسباب تعیشات کی فرمائشیں کرتی ہیں اور اسی دباوٴ کی وجہ سے جواں سال موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ اپنا جوان بیٹے کھو دینے والی اس خاتون کی باتوں میں مبالغہ آرائی ہو سکتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ جونہی سرمایہ داری نظام نے پرانے زرعی پیداوار ی نظام کو بدلا ہے، ہر شخص میں پیسے کی دوڑ بڑھتے بڑھتے جنون کی حالت اختیار کر چکی ہے۔ اب خود کفالت کا نظام ختم ہو چکا ہے اور ایک بے ترتیب انارکی زدہ سرمایہ داری سوچ غالب آچکی ہے جس میں اطمینان قلب کی بجائے اشیائے صارفین و تعیشات کی مقابلہ بازی سماجی اخلاقیات کی حدیں مسمار کرچکی ہے۔دیہی علاقوں میں معاشی ترقی کے عمل میں جدید نظام جیسے سیوریج سسٹم متعارف ہو چکے ہیں لیکن ان کو چلانے اور سنبھالنے کی سوچ پیدا نہیں ہوئی۔ نتیجہ یہ ہے دیہات بڑے شہروں کی غریب کالونیاں بن چکے ہیں جن کی گلیاں گندے پانی کے تالاب بن کرمختلف بیماریوں کا سبب بن رہی ہیں۔ جدید مشینی کاشتکاری میں کیمیائی دوائیوں (کھاد، کیڑے مار دوائیں) بھی سم قاتل بن چکی ہیں۔ جسمانی محنت کے ختم ہونے سے بھی انسانی جسم بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
دیہات کی مشترکہ زمینوں پر خوفناک طریقے سے قبضے کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے گاوٴں میں ایک انچ زمین بھی باقی نہیں بچی جس پر بچے یا بڑے کھیل کود سکیں یاذہنی دباؤ کو کم کرنے کیلئے سرگرمیاں کر سکیں۔ برطانیہ میں اسی طرح کے قبضے کا نظام پندرہویں صدی سے شروع ہوا تھا اور اگلی دو تین صدیوں میں ریاست اور سماج کی حالت آج کے پاکستان کی مانند تھی۔ ایک لحاظ سے اس وقت کا تجارتی برطانوی معاشرہ پاکستان کے زرعی نظام سے مختلف بھی تھا کہ اس میں ہر پہلو کو تحریری شکل دے دی جاتی تھی ۔ اس لئے وہاں بنیادی شماریات کا نظام بدترین حالات میں بھی مضبوط تھا۔ پاکستانی سماج اور ریاست کو ان پہلوؤں پر فوری توجہ کی ضرورت ہے وگرنہ جواں سال اسی طرح مرتے اور خود کشیاں کرتے رہیں گے۔