سر رہ گذر

December 26, 2012

صدر زرداری نے کہا ہے: عوامی مسائل جمہوری حکومت میں ہی حل ہوتے ہیں اگر کسی جاہل مطلق کا نام عالم فاضل رکھ دیا جائے، تو اس سے وہ عالم فاضل نہیں بن جاتا، اور یہی وہ مقام ہوتا ہے جب بندہ کہہ اٹھتا ہے کہ یہ بہت بھاری ہے، مجھ سے نہیں اٹھتا، اس لئے ”علموں بس کریں او یار۔“ اگر کوئی شخص اپنی ذات اور اپنے ارشادات ہی کا نام جمہوریت رکھ دے تو پھر کیوں نہ ایسی جمہوریت کے بارے کوئی کہے ”ایس جمہوریت تو بس کریں او زر دار“ اور اگر تھوڑا سا تصرف کیا جائے تو یوں بھی کہا جا سکتا ہے
جس جمہوریت سے لوگوں کو میسر نہ ہو روزی
اس جمہوریت کے ہر بچے جمورے کو بھگا دو
پانچ برس تک اگر جمہوریت کے سائے تلے کڑی دھوپ رہے پھر تو شجر سایہ دار پر سے بھی اعتبار اٹھ جائے گا۔ اب تو سنا ہے کہ اصلی جمہوریت والے بہ جبہ و دستار آ گئے ہیں، دیکھئے وہ کسی کی، اپنی، یا ایک غیر جمہوریت کے لئے کام کرتے ہیں، یا مثل گردشِ جام رہتے ہیں، زرداری نے ایک کمسن سی نوید دی ہے کہ وہ عنقریب شریک چیئرمین کا عہدہ بھی چھوڑنے والے ہیں، گویا جس ناطے نے بڑے کام دیئے وہ بھی توڑنے والے ہیں، جب ان کی صدارت کا خاتمہ ہو گا تو ان کے ذمہ صرف سوئس دولت کا واپس لانا خدانخواستہ ہو گا، کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ ان کی مسلسل شب و روز کی دولت کا خاتمہ ہو، یہ خالصتاً ان کی اپنی ذاتی کمائی ہے، جمہوریت یہاں شاید کسی انقلاب کے بعد ہی آئے گی۔
####
پانی و بجلی کی وفاقی سیکرٹری نرگس سیٹھی کا عوام کے لئے 16 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ سے انکار عوام کو نظر انداز کر کے صنعتی یونٹوں کو بجلی فراہم نہیں کی جائے گی۔ یہ نرگس سیٹھی ہیں کوئی نرگس سیٹی نہیں کہ بس بجی اور بجتی ہی رہ گئی، اس کے بجنے سے ضرور عوام کے تاریک گھروں میں بجلی آنے کے شادیانے بجیں گے، اگر یہ قوم 16 گھنٹے سوتی رہے، اور آٹھ گھنٹے کام کرتی رہے، تو جاگی ہوئی قومیں بھی سو جائیں گی۔
وزیر پانی و بجلی نہ سہی، سیکرٹری پانی و بجلی ہی سہی کسی نے تو دمِ واپسیں کوئی دیپ جلا کر جانے کی بات کی ہے، نرگس اگر سیٹھی نہ ہوتیں تو وہ بھی نرگسیت کا شکار ہو جاتیں اور صرف اپنے ہی جوبن پر نگاہ ٹکائے رکھتیں مگر یہ تو اچھا ہوا کہ انہیں قوم کے جواں سال بڑھاپے پر ترس آ گیا اور کہہ دیا کہ وہ لوگوں کو 16 گھنٹے کا اندھیرا نہیں دینے دیں گی، ظاہر ہے وہ صنعتی یونٹ جو گیس سے چلتے ہیں انہیں بجلی کی فراہمی روک دیں گے، ستم ظریفی دیکھیں وزیر پانی و بجلی کی کہ اپنی اذیت پسندی کی آگ بجھانے کے لئے عوام کے حصے کی بجلی ان صنعتی یونٹوں کو دیئے رکھی جو گیس سے چلتے ہیں ، حکمران سر تا پا تعیشات و سہولیات کے تابوتوں میں آسودہ ہیں اور ان کی حکمرانی کے لاشے پر پڑی چادر سے سر کو ڈھانپیں تو پاؤں ننگے ہوتے ہیں پاؤں ڈھانپیں تو سر ننگا ہوتا ہے، یہ چادر بھی کھینچ لینی چاہئے کہ یہ 18 کروڑ افراد کا بے گورو کفن لاشہ پانچ سالہ کرب و بلا کے مصائب کا نقشہ تو پیش کر سکے۔ اس مردہ بدمست زندہ قوم سے تو غالب اچھے رہ گئے
مارا دیارِ غیر میں مجھ کو وطن سے دور
رکھ لی مرے خدا نے مری بیکسی کی شرم
نرگس سیٹھی کے دل میں قوم کا درد اٹھا، ہم ان کو نرگسِ شہلائے من کا خطاب دیتے ہیں، کہ ہم عوام اور کیا دے سکتے ہیں۔
####
جنگ فورم میں کہا گیا ہے کہ کرسمس مذہبی تہوار کے ساتھ ساتھ عالمی ثقافت کا حصہ بن چکا ہے، بشپ سیموئیل عذرایاہ نے کہا: مذہب کی جبری تبدیلی کا خاتمہ کیا جائے۔ جہاں خود مسلمانوں کو جبری مسلمان بنانے کی ضرورت درپیش ہو وہاں کسی مسیحی کو جبراً مسلمان بنانے کی جدوجہد کون کرے گا، ویسے بھی مذہب دل کی پکار ہے۔اگر کوئی از خود مذہب تبدیل نہ کرنا چاہے تو کوئی کیسے اسے مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کر سکتا ہے، البتہ دنیا بھر میں تمام مذاہب کے علماء اپنے اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں، اب تبلیغ کو جبر تو نہیں قرار دیا جا سکتا، جبر تو یہ ہے کہ حکمران پانچ برس سے ہر پاکستا نی چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو اسے ایک جبر مسلسل کا نشانہ بنا کر اب آخر میں زخموں پر لوہے کے دستانے پہن کر ہاتھ پھیر رہے ہیں، کرسمس کا تہوار اس طرح سے منانا چاہئے کہ ہمارے عیسائی بھائی مسلمان ہندو سکھ بھائیوں کو اپنی خوشیوں سے الگ نہ سمجھیں، مسیحی برادری نے پاکستان کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں، پاکستان کے دفاع میں بھی کام آئے ہیں، سیسل چودھری جیسا نڈر مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والا پائلٹ پاکستان ایئر فورس کے لئے فخر کا باعث رہا، اگر ہم سب پاکستانی من حیث القوم ہر مذہب و عقیدے کے تہوار کو مل جل کر منائیں تو اس ملک کی طاقت اور اس کی حیثیت میں گراں قدر اضافہ ہو سکتا ہے، ایک دوسرے کے عقیدے،مذہب پر حملہ کرنا، اس کی بے حرمتی کرنا یہ انسانیت کے بھی خلاف ہے، میرا جی کا یہ دوہا یاد رکھنا چاہئے، مسیحی بھائیوں کو کرسمس کی ڈھیروں خوشیاں مبارک!
سنو سہیلی پریم کی باتا
اینویں مل جائیو جیویں دودھ بناتا
####
افریقہ کی واحد بادشاہت سوازی لینڈ میں لڑکیوں پر منی سکرٹ پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ سوازی لینڈ کے بادشاہ کی تیرہ بیویاں ہیں جو روایتی سکرٹ پہنتی ہیں اور ان کی کمر کھلی رہتی ہے۔
سیاہ فام دوشیزاؤں کے منی سکرٹ پر پابندی نہ بھی لگائی جاتی تو کیا حرج تھا بہرحال پولیس یہ کہتی ہے کہ اس کے نتیجے میں جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا تھا، اگر سیاہ رنگ دوشیزاؤں سے ایسا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے تو سفید فام لڑکیوں کے منی سکرٹ پہننے سے بہت سے خطرات کا طوفان کھڑا ہو سکتا ہے، اب تک تو مسلمان لڑکیوں کا حجاب ہی عقلوں پر پڑا رہا، اب
پڑی اپنے عیبوں پر جو نظر تو نظر میں کوئی برا نہ رہا
افریقہ نے شروعات کر دی ہے، تو سفید فام دنیا بھی ان کچھا نما سکرٹوں پر پابندی لگائے کہ ان کے ہاں بھی ”نیکیاں“ بڑھتی جا رہی ہیں۔ البتہ یہ بات بھی افریقی پریس کو پیش نظر رکھنی چاہئے کہ خود سوازی لینڈ کے بادشاہ کی تیرہ عدد بیویوں کی برہنہ کمر سے کہیں ان کی مہم کی کمر نہ ٹوٹ جائے، آج اگر سیاہ بدن کی عریانی سے اس قدر فتنہ کھڑا ہونے کا خدشہ ہے، تو یہ جو ہالی وڈ بالی وڈ اور تمام مغربی و یورپی ممالک میں جو گورا پن گھورتا ہوا نظر آتا ہے یہ کیا خرابی پیدا نہیں کر سکتا، ہمارے ہاں پنجاب میں تو صدیوں پہلے سے یہ تاثر عام ہے بلکہ اس خطرے کا اظہار بھی کیا گیا ہے
گورا رنگ نہ کسے نوں رب دیوے
تے سارا جگ ویر پے گیا
اور یہاں تک کہ سفید دانتوں کو بھی خطرے کی علامت قرار دیا گیا۔
چٹے دند ہسنوں نئیں او رہندے
تے لوکی بھیڑے شک کر دے
####