وزیر اعظم کی محض17.65 فیصد اسمبلی اجلاسوں میں شرکت

January 16, 2019

لاہور ( صابر شاہ) وزیر اعظم عمران خان نے پارلیمان کے ایوان زیریں کی کارروائیوں میں خلل ڈالنے پر حزب اختلاف کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے سیاسی مخالفین صرف کرپشن کے احتساب سے بچنے کیلئے فلور سے باقاعدگی سے واک آؤٹ کرجاتے ہیں لیکن حیرت تو اس بات پر ہے کہ کیا کبھی 22 ویں وزیر اعظم کو ان کے کسی ساتھی نے یا د دلایا ہے کہ انہوں نے خود بھی قومی اسمبلی کی 34 میں سے صرف 6 بیٹھکوں میں شرکت کی، جس کا مطلب ہے کہ وہ اب تک محض 17 اعشاریہ 65 فیصد اجلاسوں کا حصہ رہے ہیں۔ عمران خان کی جانب سے قومی اسمبلی کی جن بیٹھکوں میں شرکت کی گئی ان میں سے ایک افتتاحی سیشن تھا جو 17 اگست 2018 کو وزیر اعظم کے انتخاب کیلئے ہوا تھا۔ عمران خان 176 ووٹ لے کر وزیر اعظم بن گئے اور مسلم لیگ نون کے شہباز شریف صرف 96 قومی اسمبلی کے ارکان کی حمایت حاصل کرسکے۔ 17 اپریل 2018 کو شائع ہونے والی جون 2013 تا مارچ 2018 پاکستان کی قومی اسمبلی میں کورم اور حاضری پر فافن کی رپورٹ کے مطابق چودہویں قومی اسمبلی (پچھلی )میں پارلیمانی رہنماؤں کے درمیان عمران خان کی حاضری سب سے کم ریکارڈ کی گئی۔ سال 2013 سے 2018 کے پارلیمانی سالوں کے دوران پچھلی قومی اسمبلی کے 54 اجلاس ہوئے جو 468 بیٹھکوں پر مشتمل تھے اور جہاں تک سب سے کم پابندی کرنے والے پاکستان کے ٹاپ 10 قانون سازوں کا تعلق ہے تو تمام قانون سازوں کے درمیان عمران خان دوسرے نمبر پر رہے۔یہاں یہ بات نوٹ کرنا ناگزیز ہے کہ ریاست کے کئی ستونوں سے ہٹ کر جیسے کہ عدلیہ، ایگزیکٹو اور بیوروکریسی، صرف قانون ساز برانچ کے ارکان کا براہ راست بیلٹ مشق کے ذریعے لوگ انتخاب کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ اندازہ لگانا بہت ہی مشکل ہے کہ خزانے پر کتنا بوجھ پڑتا ہے جب ایک واحد پارلیمانی اجلاس کو واک آؤٹ یا قابو سے باہر طوفان بدتمیزی کے باعث واش آؤٹ کردیا جاتا ہے، پالیسی بنانے میں تاخیر کی قیمت یقیناً بہت زیادہ ہے اور پوری قوم کو متاثر کرتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک اہم ہائر ایجوکیشن اصلاح قانون سازوں کی پارلیمانی منظوری کیلئے زیر التواء ہے اور وہ کسی نہ کسی طرح ایوان کے فلور پر افراتفری یا شور شرابے کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے تو اس سے ملک میں لاکھوں زندگیوں پر اثر پڑے گا۔