2019 نیا سال، بڑے امتحان

January 20, 2019

دنیا بھر میں نئے سال کا استقبال مبارک، سلامت کی صداؤں، نیک تمناؤں اور دُعاؤں سے کیا جاتا ہے۔ 2019 ء کو بھی اسی روایتی انداز میں خوش آمدید کہا گیا۔ تمام تر رنجشوں، باہمی جنگوں اور سیاست کی فریب کاریوں کے باوجود امن و محبّت کا یہ پیغام، پوری انسانیت کی مشترکہ میراث بن چُکا ہے۔ مشرق سے مغرب تک اربوں انسانوں نے رنگ و نسل،مذہب اور زبان کی تفریق کے بغیر ایک دوسرے کے لیے ایسی ہی نیک تمنائوں کا اظہار کیا۔ امن، ترقّی اور محبّت کا پرچار کیا گیا، مگر ان خواہشات کی تکمیل، اُن مسائل کے حل سے وابستہ ہے، جن کا تعلق غربت اور خوش حالی سے ہے۔لوگ بہتر زندگی چاہتے ہیں اور یہی وہ چیلنج ہے، جس کا نئے سال میں عالمی قیادت کو سامنا ہے۔ افریقا سے آسٹریلیا تک، بین الاقوامی اُمور اسی صُورتِ حال کی عکّاسی کر رہے ہیں۔ تاہم، سوال یہ ہے کہ کیا عالمی قیادت میں ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے مطلوبہ دانش اور صلاحیت موجود ہے؟ دنیا کی معیشت میں بہتری آئی ہے، اقتصادی بحران گزر چُکا ہے۔ کوئی نئی بڑی جنگ نہیں چِھڑی، لیکن سلگتے تنازعات اپنی جگہ موجود ہیں۔ شام میں خانہ جنگی جاری ہے، تو شمالی کوریا کا ایٹمی مسئلہ بھی ابھی تک حل طلب ہے۔ ایران کی نیوکلیئر ڈیل کس کروٹ بیٹھے گی، کچھ پتا نہیں۔ پھر افغانستان کا بحران بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ نیز، یہ بھی دیکھنا ہے کہ بریگزٹ، یورپ اور باقی دنیا کے لیے کیا گُل کِھلائے گا۔ علاوہ ازیں، کشمیر کا مسئلہ بھی جوں کا توں ہے۔ پھر یہ کہ دنیا پر تجارتی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ غربت، بے روزگاری، جہالت اور دہشت گردی جیسے ناسور منہ کھولے کھڑے ہیں۔ دوسری طرف دیکھیں، تو عالمی قیادت میں کسی بڑی تبدیلی کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ تینوں بڑے عالمی رہنما، ڈونلڈ ٹرمپ، شی جن پنگ اور پیوٹن تو اپنی جگہ پر رہیں گے، البتہ، یورپ اور برطانیہ میں کچھ چہرے ضرور بدل سکتے ہیں۔ فرانس میں میکرون کی مشکلات بڑھ رہی ہیں، لیکن وہاں پالیسی کا تسلسل رہے گا۔ اندازہ یہی ہے کہ مغرب میں قوم پرستی کی لہر مزید بڑھے گی، تو ترقّی پزیر مُمالک میں سیاسی عدم استحکام برقرار رہے گا، جس سے اُن کی معیشتیں بُری طرح متاثر ہوں گی۔ پھر موسمیاتی تبدیلیوں کا چیلنج بھی سامنے ہے۔ کیا اس سب کچھ کے باوجود’’ ہیپی نیو ائیر‘‘ کہنا مناسب ہوگا؟ یہ صرف عالمی قیادت ہی نہیں، پوری انسانیت کے لیے بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔

ہم گزشتہ برسوں میں بار بار قوم پرستی کی بڑھتی لہر کی جانب توجّہ دِلاتے رہے ہیں۔ ویسے یہ کوئی بہت زیادہ حیرت کی بات بھی نہیں ، کیوں کہ موجودہ مُمالک کی بنیاد نیشنل ازم یا قوم پرستی ہی پر اٹھائی گئی ہے۔ ہر مُلک کا نعرہ’’حبّ الوطنی‘‘ ہے، شاید اسی لیے عالمی شہرت یافتہ فرانسیسی فلسفی، والٹیر نے کہا تھا’’ a patriot means to be enemy of everybody else‘‘یعنی محبّ ِ وطن ہونے کا مطلب باقی ہر ایک کا دشمن ہونا ہے۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے آج دنیا کی طاقت، قوم پرست لیڈرز کے ہاتھوں میں ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ’’ امریکا فرسٹ‘‘، شی جن پنگ’’ چائنا ڈریم‘‘، پیوٹن’’ روسی عظمتِ رفتہ‘‘، وزیرِ اعظم، شنزو ایبے’’ جاپان کی طاقت‘‘،چانسلر مرکل اور فرانس کے میکرون سمیت یورپی لیڈرز’’ یورپ سُپر طاقت‘‘ کے نعرے لگا رہے ہیں۔ سرد جنگ کے بعد گلوبلائیزیشن نے جس عالمی تعاون کے خواب دِکھائے تھے، اِن حالات میں وہ بِکھرتے نظر آرہے ہیں۔ اب’’ عالمی تعاون‘‘ کے معمار ہی اس کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبلائیزیشن نے دنیا کو تیزترین ترقّی سے ہم کنار کیا تھا۔ جہاں چین دنیا کی دوسری اقتصادی قوّت بنا، وہیں ابھرتی معیشتوں میں عوام نے خوش حالی کے نئے معیار دیکھے۔ بھارت، برازیل، تُرکی اور جنوبی افریقا میں کروڑوں افراد غربت کی لکیر سے اوپر آئے۔ بلاشبہ، تاریخِ انسانی نے یہ منظر پہلے نہیں دیکھا تھا۔ انٹرنیٹ نے رابطے آسان تر بنائے، تو موبائل فونز نے دنیا انسان کی ہتھیلی پر رکھ دی۔ تاہم، اس ترقّی کے باوجود وہ کش مکش ختم نہ ہوسکی، جو عالمی تنازعات اور جنگوں کی وجہ بنتی ہے۔ اگر آج شام میں خانہ جنگی ختم ہونے کی بات ہو رہی ہے، تو اس کی قیمت پانچ لاکھ شامی معصوم شہریوں نے ادا کی۔ لیبیا میں لاکھوں ہلاکتیں ہوئیں، تو عراق میں ہول ناک خانہ جنگی نہیں بھلائی جا سکتی۔ نیز، افغان خانہ جنگی کی تباہ کاریوں سے کون واقف نہیں۔ دہشت گردی القاعدہ، طالبان، داعش، مشرقِ وسطیٰ کے ایرانی جنگجو گروپس اور نہ جانے کون کون سی شکلیں بدل بدل کر دنیا پر مسلّط ہو رہی ہے۔دراصل، موجودہ قوم پرستی کی بنیاد وہ عالمی اقتصادی بحران بنا، جس نے دنیا کو بالعموم اور مغربی مُمالک کو بالخصوص لپیٹ میں لیا تھا۔ اس بحران نے امریکا، یورپ، جاپان اور کینیڈا کے کس بل نکال دیے۔ بحران کے سخت دنوں میں امریکا کی، جو دنیا کی سب سے مضبوط اکانومی ہے، یہ حالت ہوگئی تھی کہ ایک مہینے میں چھے لاکھ افراد ملازمتوں سے فارغ کیے گئے۔ برطانیہ، اٹلی، فرانس، یونان سب ہی اس کی زَد میں آئے۔ جب کہ برازیل اور وینزویلا تو تباہ ہی ہوگئے تھے۔ کیوبا نے مشکلات پر قابو پانے کے لیے امریکا کے سامنے گُھٹنے ٹیک دیے۔ روس گیس کے سب سے بڑے ذخائر کے باوجود منفی اشاریوں میں چلا گیا۔نیز، عرب دنیا تیل کی کم قیمتوں کے دبائو سے آج تک سنبھل نہیں پائی۔ البتہ، چین اپنی اقتصادی پالیسی کے ارتکاز اور جرمنی، مرکل کی کفایت شعاری کی بہ دولت اس اقتصادی بحران میں بچ گیا۔ امریکا میں اس بحران کا ری ایکشن، قوم پرستی کی شکل میں ہوا اور ڈونلڈ ٹرمپ اس کی علامت بن کر اقتدار میں آئے۔ اُنہوں نے’’ امریکا فرسٹ‘‘ کا نعرہ دیا اور اس پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ امریکی عوام اُن کے ساتھ ہیں، گو اُن کے اپنے مُلک کا میڈیا اور ساری دنیا اُن سے اختلاف کرتی ہے، لیکن عوامی سپورٹ نے ٹرمپ کو اپنے مُلک کی اقتصادی حالت مستحکم کرنے میں مدد دی۔ وہ چین، اپنے اتحادی یورپی ممالک اور کینیڈا تک پر ٹریڈ ٹیکس لگاتے رہے۔ اسے عجیب بات ہی کہیے کہ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے پہلے تو ہر طرف مطالبہ تھا کہ امریکا عالمی معاملات، خاص طور پر اقتصادی اُمور میں اپنی مداخلت کم کرے اور آج کہا جارہا ہے کہ امریکا کی عالمی معاملات سے پسپائی اور عدم دِل چسپی، دنیا کے امن و ترقّی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ٹرمپ کی مثال سامنے رکھ کر دیکھا جائے، تو اس وقت دنیا کی تمام بڑی قوّتوں کی قیادت انہی کی راہ پر گام زَن ہے۔صدر، شی جن پنگ، چین کی معیشت مضبوط تر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔اسی طرح پیوٹن بھی اپنے مُلک کی اقتصادی بحالی پر فوکس رکھے ہوئے ہیں۔برطانیہ، بریگزٹ یعنی یورپی یونین سے علیٰحدہ ہورہا ہے، اس کا بھی معیشت سے گہرا تعلق ہے، کیوں برطانوی عوام یورپی لوگوں تک سے اپنے فوائد شئیر کرنے کو تیار نہیں۔ اُدھر خود یورپی یونین بھی اسی صُورتِ حال سے دوچار ہے۔ اٹلی میں قوم پرست حکومت آچُکی ہے، جس نے تارکینِ وطن ہی نہیں، برسلز کی اکثر پالیسیز کو چیلنج کر رکھا ہے۔ مرکل، عرب تارکین کے لیے دروازے کھولنے کی سزا بھگت رہی ہیں۔ اُنہوں نے جرمنی کو دوبارہ عالمی طاقت بنایا، لیکن اب عوام اُنھیں برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کی کمائی میں دوسرے کم سے کم شریک ہوں۔ دوسال قبل بھاری اکثریت سے آنے والے صدر، میکرون فرانس میں اپنے اقتدار کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔’’ زرد جیکٹس احتجاج‘‘ اُن کی ہر اقتصادی پالیسی کو مسترد کر رہا ہے اور اُنہیں مسلسل پسپائی کا سامنا ہے۔درحقیقت، میکرون اقتدار کے زعم میں یہ بھول گئے تھے کہ اُن کے مُلک میں قوم پرست بھی ایک بڑی سیاسی قوّت بن چُکے ہیں۔ یاد رہے کہ قوم پرست لیڈر صدارتی مقابلے میں اُن کی حریف تھیں۔اب اس بھول کی قیمت چُکانی پڑ رہی ہے۔ یہ سارے معاملات ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا بہت بدل چُکی ہے اور نئے سال میں مزید بدلے گی۔

پاکستان کو اس وقت اقتصادی چیلنج کا سامنا ہے۔ترقّی کی رفتار سُست اور گروتھ ریٹ گر چُکا ہے۔ قرضوں اور امداد کے حصول کی کوشش خارجہ پالیسی کی اوّلین ترجیح بن چُکی ہے۔ برآمدات کا ذکر بہت ہو رہا ہے، تاہم معیشت کا پہیہ رواں ہوگا، تو اس کی باری آئے گی۔ کیا صرف خام مال ہی برآمد کرتے رہیں گے اور ٹیکنالوجی سے تیار مصنوعات خواب ہی رہیں گی؟سیاسی عدم استحکام اور معاشی کم زوری کا ناخن، گوشت کا رشتہ ہے، شاید ہم اسے سمجھنے میں ناکام رہے ہیں اور اسی وجہ سے پالیسیز میں توازن قائم نہیں رہتا۔کبھی سیاسی مضبوطی پر زور دے کر اقتصادیات کو بھول جاتے ہیں، تو کبھی اقتصادی معاملات میں سیاسی استحکام نظرانداز کر دیتے ہیں۔ اب کرپشن ہی کو لے لیں۔ بلاشبہ اسے جڑ سے اکھاڑنا لازم ہے، لیکن ساتھ ہی باقی شعبوں پر بھی توجّہ دینا ناگزیر ہے، وگرنہ عوام کی بے اطمینانی پریشان کُن رنگ دِکھائے گی۔ حکم رانوں کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ اگر اُنھیں اقتدار ملا ہے، تو اپوزیشن بھی ووٹ لے کر ایوان میں آئی ہے۔تاہم، یہ درست ہے کہ مخلوط حکومتوں کی بہت سی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ اُنھیں قدم قدم پر سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ اسے جُھکنا نہیں کہنا چاہیے، بلکہ یہ سیاسی تدبّر اور لچک کا امتحان ہوتا ہے۔ برطانیہ میں بریگزٹ جیسا انقلابی فیصلہ ایک کم زور اتحادی حکومت کی سربراہی میں ہو رہا ہے، جس کے سامنے یورپی یونین جیسا دیو کھڑا ہے۔ قیادت کا اصل امتحان یہی ہے کہ وہ معاملات میں کس خُوب صورتی سے توازن برقرار رکھ پاتی ہے۔ عمران خان میں بہت سی خُوبیاں ہیں، لیکن اُنھیں توازن کی صفت بھی خود میں پیدا کرنی چاہیے۔اُنہیں پالیسیز میں توازن کے گُر سیکھنے ہوں گے، وگرنہ وہ اپنی پارٹی اور مُلکی سیاست کے لیے مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔

اگر دنیا کی سیاسی صورتِ حال پر نظر ڈالی جائے، تو نظر آئے گا کہ آئندہ سالوں میں کسی بڑی جنگ یا فوجی تصادم کا کوئی خطرہ نہیں۔ دہشت گردی ختم نہیں ہوئی، تو بھی گزشتہ برسوں میں اس پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا ہے۔تاہم ماہرین کے اندازوں کے مطابق، بڑی جنگوں کی جگہ علاقائی تنازعات اور باقاعدہ فوجوں کی جگہ نان اسٹیٹ ایکٹرز نے لے لی ہے۔ اب وہی ہلاکتوں اور سیاسی عدم استحکام کا باعث بن رہے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں امریکا، روس، ایران اس اَمر پر متفّق ہیں کہ داعش کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ اسی لیے امریکا شام سے فوجیں واپس بلا رہا ہے اور روس بھی ایسا ہی اعلان کرچُکا ہے۔ افغانستان کے بارے میں بھی کچھ اسی طرح کی اطلاعات ہیں۔بہ ظاہر تو یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ جن کا مُلک ہے، معاملات اُنہی کے حوالے کر دیے جائیں، مگر دیکھنا ہوگا کہ کیا ان مُمالک کی قیادت اپنے مُلکوں کو سنبھالنے کی اہلیت بھی رکھتی ہے یا نہیں۔ پھر جو تباہ کاریاں ان خانہ جنگیوں کے دَوران ہوئیں، اُن کا اقتصادی بوجھ کون برداشت کرے گا؟بحالی کی قیمت کون ادا کرے گا؟پاکستان تو صرف قرضوں کے دبائو سے پریشان ہے، لیکن یہ مُلک تو بربادی اور تباہی کی مثال بن چُکے ہیں۔ شام، افغانستان، عراق، لیبیا اور یمن عالمی امداد کے بغیر کیسے کھڑے ہوں گے؟کیا عالمی قوّتوں کا ان علاقوں سے انخلا، تخریبی قوّتوں کو پھر مداخلت کی دعوت نہیں دے گا؟ اس طرح کے معاملات عالمی اور علاقائی قوّتوں کو باہم مشاورت اور مفاہمت سے طے کرنے ہوں گے۔ خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ آج پہلی عالمی جنگ کے بعد کی طرح اجڑا ہوا ہے۔ تیل کی قیمتیں گر رہی ہیں۔ خانہ جنگی نے شہروں کو کھنڈر اور لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ جیسے عالمی ادارے بے بس ہیں۔ ایران و عرب کش مکش کم ہوکر نہیں دیتی، جس کے پڑوسی ممالک پر خطرناک اثرات مرتّب ہو رہے ہیں۔ دراصل، 2019 ء ان ہی جیسے مسائل سے نبرد آزما ہونے کا سال ہوگا ۔