بگاڑ؟

January 18, 2019

قومی زندگی کے سارے پہلوئوں کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا البتہ کالم میں ہلکا پھلکا سا تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔ تفصیل یا تحقیق کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ مجموعی رویے کے حوالے سے ہماری قوم چھپے ہوئے الفاظ سے کچھ نہیں سیکھتی۔ تندوتیز اور نوکدار فقروں سے لوگ لطف اندوز ضرور ہوتے ہیں اور سیاسی مخالفین ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے کے لئے انہیں سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں۔ یوں یہ انتقامی کارروائی کا حصہ بن کر اپنی تاثیر کھو بیٹھتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ بگاڑ ہماری قومی زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہو چکا ہے اور اس کے اثرات وقت کے ساتھ ساتھ نمایاں ہو رہے ہیں۔ اس بگاڑ کے سمندر کے سامنے بند باندھنا کسی کے بس کا روگ نہیں کیونکہ یہ بگاڑ رویوں، سوچ اور عمل کا یوں حصہ بن چکا ہے کہ اب اسے بگاڑ نہیں بلکہ ایک نارمل بات سمجھا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ زیاں اپنی جگہ یہاں تو احساسِ زیاں بھی تقریباً دم توڑ چکا ہے۔ چونکہ یہ بگاڑ ہماری اقدار، قومی زندگی، رویے اور عمل سے تعلق رکھتا ہے اس لئے حکومت کچھ کر سکتی ہے نہ کوئی اور ادارہ۔ ہاں حکومت یہ ضرور کر سکتی ہے کہ قانون سازی کے ذریعے معاملات کو کنٹرول کرے لیکن سوال یہ ہے کہ جس معاشرے میں قانون مذاق بن جائے اور کھلم کھلا پامال ہوتا رہے وہاں قانون سازی سے کتنی بہتری لائی جا سکتی ہے؟ قانون کو سختی سے نافذ کر کے شاید کچھ مثبت نتائج حاصل کئے جا سکیں لیکن کیا اسے پولیس نافذ کرے گی جو ملک کا کرپٹ ترین ادارہ سمجھا جاتا ہے اور جس کے بارے میں عمومی تاثر ہے کہ اسے مجرمان، ملزمان اور بالادست طبقے آسانی سے خرید سکتے ہیں۔

جسٹس ثاقب نثار اصلاح اور تعمیر کا بیڑا اٹھائے کل ریٹائر ہو گئے اور اب ان کا وہی حال ہو گا جو ہر ریٹائرڈ صاحب اختیار کا ہوتا ہے۔ آج وہ جس اسپتال میں قدم رکھتے ہیں اس کے در و دیوار کانپنے لگتے ہیں اور انتظامیہ ہانپنے لگتی ہے۔ یادش بخیر چند ہفتے قبل مجھے ایک سرکاری اسپتال میں جانے کا موقع ملا تو میں ایک منظر دیکھ کر خاصا محظوظ ہوا۔ بھیڑ میں دھکے کھاتے گیٹ کی طرف آیا تو ایک سیاہ مرسیڈیز میرے سامنے آن کر رکی جس سے پنجاب کے ایک سابق چیف جسٹس برآمد ہوئے۔ وہ صاحب کئی بار پنجاب کے قائم مقام گورنر بھی رہے۔ سرکاری حیثیت میں وہ جب اس اسپتال میں تشریف لاتے تھے ہر طرف ہٹو بچو کا تماشا لگتا تھا۔ آج وہ تشریف لائے تو چپراسی بھی انہیں پہچاننے سے انکاری تھے۔ وہ برآمدوں کی بھیڑ میں میری طرح دھکے کھا رہے تھے اور میں انہیں دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ آپ ماشاء اللہ دولت مند انسان ہیں، دس گیارہ لاکھ روپے ٹیکس فری پنشن پاتے ہیں، کسی ڈاکٹر کے پرائیویٹ کلینک میں چلے جاتے اور تین ہزار روپے فیس ادا کر لیتے تو ان دھکوں سے بچ جاتے۔ دیکھا جائے تو وطن عزیز میں دھکے عام انسانوں اور عام شہریوں کا مقدر ہیں اور وہ بچپن ہی سے اس سلوک کے عادی بنا دیئے جاتے ہیں۔ صاحبانِ اقتدار اس کے عادی نہیں ہوتے اس لئے ریٹائرمنٹ کے بعد سوچتے ہیں کہ سرکاری افسری بہت اچھی چیز ہوتی ہے بشرطیکہ ریٹائرمنٹ نہ ہو۔ بقول شفیق الرحمٰن مجھے بچے بہت اچھے لگتے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ وہ بڑے ہو جاتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس اور سابق گورنر کو ’’گواچی گائے‘‘ کی مانند بوکھلائے دیکھا تو میں نے چشم تصور سے قوم کا غم کھانے والے جسٹس ثاقب نثار کے مستقبل کے حوالے سے خیالی مراقبہ کیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ جناب جسٹس ثاقب نثار بھاشا ڈیم کے سامنے جھگی میں رہائش پذیر ہیں۔ ڈیم کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ وہ ایک گم شدہ انسان کی مانند اِدھر اُدھر پھر رہے ہیں اور قوم سے کیا وعدہ نبھا رہے ہیں لیکن مزدور سے لے کر انجینئرز اور ٹھیکے دار کوئی بھی ان کی طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ مراقبے کا آخری منظر خوفناک تھا۔ شام کے سایے پھیل چکے ہیں، تاریکی پہاڑوں سے اتر کر زمین پر چھا رہی ہے، محترم ثاقب نثار صاحب اپنی جھگی میں تشریف فرما ہیں، اتنے میں کچھ ہٹے کٹے صحت مند خوفناک لوگ اسلحے سے لیس اندر آتے ہیں اور جج صاحب کو اغوا کر لیتے ہیں، وہ شور مچاتے ہیں کہ میں سپریم کورٹ کا جج ہوں قوم کی خدمت کر رہا ہوں، اغوا کنندگان ایک دوسرے سے کہتے ہیں موٹی اسامی ہاتھ آئی ہے تاوان ایک ارب روپے سے کم نہیں مانگنا۔ اس کے ساتھ ہی مراقبے کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے اور میں سوچنے لگتا ہوں کہ دولت کی ہوس اور لاقانونیت ہماری قومی زندگی کے اہم ترین مسائل ہیں جنہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں بگاڑ پیدا کیا ہے۔ حکمرانوں، سیاستدانوں، فوجی و سول افسروں کو ہوس زر نے دبوچ رکھا ہے اور ان کے دیکھا دیکھی ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ ہر کوئی اپنی ہمت، طاقت اور استطاعت کے مطابق دولت سازی میں مبتلا ہے۔ قومی زندگی کے مقدس ترین شعبے میڈیکل اور عدلیہ ہیں۔ پروفیسرز ڈاکٹرز یعنی ماہرین امراض اسپتال میں تھوڑے سے وقت کے لئے قدم رنجہ فرماتے ہیں پھر پرائیویٹ پریکٹس کے ذریعے روپوں کی بوریاں بھرنے کے لئے ذاتی کلینک میں پہنچ جاتے ہیں جہاں غریب آدمی قریب بھی نہیں پھٹک سکتا۔ دولت بہرحال سردمہری، سنگدلی، ہوس، غرور اور احساس برتری پیدا کرتی ہے جو قومی زندگی کے اہم شعبوں کی روح کو پامال کر دیتی ہیں۔ چند روز قبل ایک ملک کے بارے میں خبر تھی کہ وہاں اعلیٰ عدلیہ نے خود اپنی تنخواہیں کم کر دی ہیں۔ خبر پڑھ کر میں سوچنے لگا کہ ہمارے ہاں عام طور پر کامیاب وکیل کروڑوں کما کر جج بنتا ہے، بحیثیت جج لاکھوں میں تنخواہ اور بہت سے لاکھوں میں پنشن پاتا ہے، پھر بھی اسلام آباد کے جج وفاقی حکومت سے دوپلاٹ کے حصول کا استحقاق استعمال کرتے ہیں۔ اچھا ہوتا جسٹس ثاقب نثار یہ سلسلہ ختم کر جاتے۔

بہت سی اہم باتیں رہ گئیں۔ مختصر یہ کہ ہوس زر اور لاقانونیت ہماری قومی زندگی کے ہر شعبے کو دیمک کی مانند چاٹ رہی ہے۔ کیا اس دیمک پہ قابو پایا جا سکتا ہے؟ مجھے تو کھلاڑی وزیر اعظم کی یہ ادا بھی پسند ہے کہ اسے احساس ہی نہیں اس کے خلاف ’’سیاسی طوفان‘‘ تشکیل پا رہا ہے حتیٰ کہ اس کے بھتیجے مونس الٰہی نے بھی ق لیگ کی علیحدگی کی دھمکی دے دی ہے۔ لوگ مہنگائی تلے چیخ رہے ہیں، منی بجٹ خوف بن کر عوام کے سروں پر لہرا رہا ہے، حکومتی وزراء اپنی حکومت کی کارکردگی بیان کرنے کے بجائے ہمہ وقت مخالفین کو گھسے پٹے طعنے دینے میں مصروف ہیں اور کھلاڑی گرم دودھ کا پیالا پی کر استراحت فرما رہا ہے……انجام گلستاں؟؟