پختونخوا میں بھی بھوت اسکول!

January 20, 2019

قومی بجٹ کے محض دو فیصد پر چلنے والے تعلیمی شعبے کا گھوسٹ اسکولوں کی لعنت کے سبب اس دو فیصد کے بھی ایک بڑے حصے سے محروم رہ جانا ملک کے حکمرانوں کے لیے بلاشبہ ایک فوری توجہ طلب معاملہ ہے۔ اس سفاکانہ دھاندلی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ملک کے ڈھائی کروڑ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ چند ماہ قبل پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں پائے گئے گھوسٹ اسکولوں کے بعد اب خیبر پختونخوا میں لڑکیوں کے 134اور لڑکوں کے 14ایسے سرکاری پرائمری اسکولوں کے گزشتہ سات سال سے غیر فعال ہونے اور 25کے عارضی طور پر بند ہونے کا انکشاف ہوا ہے، جن میں تعینات اساتذہ بدستور تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔ اس صورتحال کاسدِّباب نہ کیا گیا اور ذمہ داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی نہ کی گئی تو بدعنوانی کی مزید حوصلہ افزائی ہو گی اور قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کا رجحان اور بڑھے گا۔ خیبر پختونخوا میں ایک المیہ یہ بھی رہا ہے کہ گزشتہ بیس برس کے دوران 28ہزار 510میں سے تین ہزار اسکول دہشت گردی یا قدرتی آفات کے باعث تباہ یا بند ہوئے جبکہ صوبے کی آدھی سے زیادہ آبادی ایسی ہے جو غربت کے باعث بچوں کو انتہائی کم خرچ اسکولوں میں بھی نہیں بھیج سکتی اور نہ ہی والدین اپنے بچوں کو کتابیں کاپیاں خرید کر دے سکتے ہیں۔ یہی حال بلوچستان اور اندرونِ سندھ کا ہے۔ اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ایسے معاملات پر ہونے والی بیشتر تحقیقات یا تو سرخ فیتے کی نذر ہو جاتی ہیں یا حقائق کو توڑ مروڑ کرسب اچھا کی رپورٹ دے دی جاتی ہے۔ گھوسٹ اسکولوں کے بارے میں بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ آج تک سامنے نہیں آیا اور یہ اسکول پوری دیدہ دلیری سے چلائے جا رہے ہیں، لہٰذا بہتر ہوگا کہ ان تمام معاملات کی تحقیقات بلا تاخیر چاروں صوبوں میں نیب کی جانب سے کی جائے اور نونہالوں کے مستقبل سے کھیلنے والے افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔


اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998