یکبارگی تین طلاقیں: نہیں ہوتیں

January 22, 2019

تین طلاقوں کا مسئلہ مسلم عائلی یا خانگی زندگی میں ہمیشہ باعث نزاع رہا ہے ۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو یکبارگی دی گئی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق قرار دیتے ہیں اور ایسے تجاوز کو طیش کا نتیجہ خیال کرتے ہوئے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اس نقطۂ نظر کے حامل ہیں کہ جب بالفعل اکٹھی تین طلاقیں دے دی گئی ہیں تو وہ تین ہی شمار کی جائیں گی لیکن چونکہ یہ فعل ناپسندیدہ ہے اس لیے ایسے شخص کو تادیب کیلئے کوڑے لگائے جائیں گے۔ خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ کا یہی فیصلہ تھا جو بعدازاں فقہ حنفی نے اپنایا مگر مالکی، حنبلی اور فقہ جعفری اوّل نقطۂ نظر کو درست خیال کرتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں بھارت میں اس ایشو پر خاصی لے دے ہوئی بالآخر یہی فیصلہ کیا گیا کہ یکبارگی دی گئی تین طلاقوں کو قانوناً ایک ہی طلاق شمار کیا جائے گا۔

درویش کی نظر میں ہمارے عائلی قوانین مجریہ 1961ء میں اس ایشو کو زیادہ بہتر اسلوب میں حل کیا گیا ہے۔ اگرچہ ہمارے بعض اہل مدارس پھر بھی اس میں کچھ نہ کچھ کنفیوژن پھیلاتے رہتے ہیں اور عائلی قوانین کو سوسائٹی کیلئے مفید ہونے کے باوجود اپنے مسلکی نقطۂ نظر میں متنازع بنانے کیلئے کوشاں رہتے ہیں جس سے کئی ایسے مفاسد پیدا ہوتے ہیں جن کا ہم یونین کونسلز میں سامنا کرتے ہیں بالخصوص رورل ایریاز میں۔ ناچیز کے ذاتی علم میں بارہا اس طرح کے واقعات آئے ہیں کہ قانونی طور پر ایک عورت زید کی بیوی ہے مگر عملی طور پر وہ بکر کے بچے جنم دے رہی ہے، پوچھا جائے تو بتایا جاتا ہے کہ شرعی طلاق ہوگئی تھی لیکن قانونی طور پر اس کا اندراج نہیں کروایا جا سکا۔ اس سے بھی بڑھ کر کئی عجیب و غریب واقعات دیکھنے میں آتے ہیں کہ ایک پانچ بچوں کے باپ نے طیش میں آکر اپنی بیوی کو تین مرتبہ یا اس سے بھی زائد بار طلاق طلاق طلاق کہہ دیا۔ بعدازاں جب غصہ ٹھنڈا ہوا تو اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا روتے ہوئے یونین کونسل کے رستے ناچیز کے پاس پہنچا تو حوصلہ دیا کہ پریشان نہ ہوں ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لاء آف لینڈ کے تحت آپ کی طلاق اس وقت تک نہیں گنی جائے گی جب تک کہ آپ تین ماہ گزار کر یونین کونسل سے طلاق موثر ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل نہیں کر لیتے۔ پھر وہ اپنی کہانی سنانا شروع کرتے ہیں کہ ہم تو فلاں فلاں مولوی صاحب کے پاس گئے تھے مگر انہوں نے کہا ہے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا، آپ لوگوں کی تینوں طلاقیں ہو چکی ہیں، اب آپ لوگ ایک دوسرے پر حرام ہو چکے ہیں لیکن جناب آپ بتائیں ہمارے پانچ بچے ہیں اب ہم کیا کریں کدھر جائیں ہم تو برباد ہو جائیں گے۔

درویش ایک مرتبہ ایک نامور عالم دین کے پاس بیٹھا کچھ شرعی مسائل ڈسکس کر رہا تھا کہ وہاں ایک جوڑا روتے ہوئے پہنچا اور کہا کہ حضرت ہم رُل گئے ہیں۔ خاوند بولا کہ میں غصے میں اکٹھی تین طلاقیں دے بیٹھا ہوں، اب پچھتا رہا ہوں میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ مولانا بولے:یہ بات تم نے طلاق دینے سے پہلے سوچنا تھی اب اس کا کوئی حل نہیں۔ مجھ ناچیز سے نہیں رہا گیا عرض کی:مولانا آپ تو ’’کتاب الحیلہ‘‘ کے بڑے اسکالر ہیں، آپ انہیں میرے پاس بھیج دیں میں مسئلہ حل کروا دیتا ہوں کیونکہ قانونی طور پر ان کی طلاق نہیں ہوئی۔ مولانا بولے:بات قانون کی نہیں شریعت کی ہے۔ فقہ حنفی کے مطابق ان کی طلاق ہو چکی ہے، عرض کی: مولانا انہیں دوسری فقہ والوں کے پاس بھیج دیں ان کے نزدیک بھی طلاق نہیں ہوئی۔ مولانا کمال کے آدمی تھے بہت خوش ہوئے‘ بولے:تم لوگ سیدھے دوسرے فقہ کی کسی مسجد میں چلے جاؤ، وہاں تمہارا مسئلہ حل ہو جائے گا، ہماری فقہ کے مطابق طلاق ہو چکی ہے جبکہ ان کے پاس اس کی گنجائش موجود ہے۔

عرض مدعا یہ ہے کہ ہمارے عائلی قوانین باشندگانِ پاکستان کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں یہ الگ بات ہے کہ ان پر غیر شرعی ہونے کی پھبتی کسی جاتی ہے لیکن حق یہ ہے کہ نہ تو یہ غیر شرعی ہیں اور نہ ہی قرآن و سنہ کی روح کے خلاف ہیں۔ درویش کسی بھی فورم پر ان حوالوں سے بحث کرنے کو تیار ہے۔

تین طلاقوں کا مسئلہ قرآنی لحاظ سے تین طہر کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ قرآن کے مطابق ایک طہر میں ایک طلاق ہی بنتی ہے دورانِ حیض یا حمل تو طلاق ویسے ہی نہیں دی جا سکتی۔ پیغمبر اسلامﷺ کی زندگی میں اور ان کے بعد خلیفہ اوّل ابوبکر صدیقؓ کے دور میں اسی اصول پر عمل ہوتا رہا۔ خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق ؓ حکمت عملی کے تحت کئی معاملات میں اجتہادی نقطۂ نظر اپنا لیتے تھے۔ تین طلاقوں کے متعلق اُن کا فیصلہ اگرچہ طلاقوں کی بہتات کو روکنے کیلئے تھا مگر اب اپنی زمانی افادیت کھو چکا ہے لہٰذا ہمارے حنفی بھائیوں کو اس پر اصرار نہیں کرنا چاہئے۔

ہمارے 1961کے موجودہ عائلی قوانین نے نہ صرف ان تنگناؤں کو بند کر دیا ہے بلکہ مصالحتی کونسل تشکیل دیتے ہوئے سوسائٹی کی یہ قانونی ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ ان تین مہینوں میں صلح صفائی کی جو کوششیں ممکن ہیں ،ضرور کی جائیں۔ اس قانون کے تحت کوئی شخص طلاق تین مرتبہ دے یا ستر مرتبہ، وہ ایک ماہ میں ایک طلاق گنی جائے گی، دوسرے میں دوسری اور تیسرے مہینے میں تیسری قرار پائے گی مگر قانون نے اس مجموعی عمل کو مربوط کرتے ہوئے ٹوٹل 90 دن تک پھیلا دیا ہے یا محدود کر دیا ہے۔ یوں وہ 90دن یعنی تین ماہ بعد اس صورت میں موثر ہو سکے گی جبکہ فریقین میں مصالحت کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی ہو۔