جاپان اور بھارت کے دفاعی و معاشی تعلقات

January 30, 2019


چین کی خطے میں بڑھتی ہوئی دفاعی اور معاشی طاقت نے طاقت کے تواز ن کو کافی حد تک متاثر کیا تو جاپان جس کے چین کے ساتھ تاریخی سیاسی و جغرافیائی تنازعات موجود تھے اسے طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ایک طاقت ور دفاعی اتحادی کی ضرورت تھی، لہٰذا جس طرح دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے اسی طرح جاپان کی نظریں بھارت پر پڑیں جس کے چین کے ساتھ بھی کئی تنازعات تھے اور دونوں ممالک کے درمیان 1962ء میں جنگ بھی لڑی جاچکی ہے۔

جہاں جاپان نے چین کے تناظر میں بھارت کے ساتھ روابط استوار کیے وہیں بھارت نے چین اور پاکستان کے تناظر میں جاپان کے ساتھ گہرے اور اسٹرٹیجک تعلقات کے فروغ کے لیے کام کیا ہے لیکن جاپان اور چین کے تعلقات اور پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں خاصا گہرا تضاد ہے۔

جاپان اور چین کے تعلقات میں پہلی جنگ عظیم کے بعد سے کشیدگی ہے کیونکہ پہلی جنگ عظیم کے بعد جاپان نے چین پر قبضہ کر کے چین کو اپنی کالونی میں تبدیل کرلیا تھا اور تاریخی حوالوں سے دیکھا جائے تو اپنے قبضے کے دوران جاپانی افواج نے چینی عوام پر کافی ظلم و ستم بھی کیے تھے تاہم دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی شکست کے بعد چین کو آزادی ملی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چین ایک عظیم قوم کی صورت میں سامنے آیا، اس کے باوجود دونوں ممالک نے ماضی کے تلخ سیاسی تعلقات کو حال کے بہترین معاشی تعلقات پر حاوی نہیں ہونے دیا اور آج چین اور جاپان بہترین معاشی پارٹنر ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی تجارت کا حجم دو سو ارب ڈالر سالانہ سے زائد ہے۔

دوسری جانب پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم ہند کے وقت شروع ہونے والی تلخیاں آج تک باقی برقرار ہیں جبکہ مسئلہ کشمیر کی صورت میں یہ تلخیاں کب تک باقی رہتی ہیں اس کا کوئی اندازہ نہیں، ان ہی مسائل کے سبب دونوں ممالک کے درمیان آج تک گہرے معاشی تعلقات قائم نہیں ہوسکے ہیں جہاں تک جاپان کی جانب سے بھارت کو بہترین تجارتی و دفاعی پارٹنر بنانے کی بات ہے تواس میں امریکا کا بھی اہم کردار رہا ہے۔

گزشتہ تین سال میں جاپانی وزیر اعظم تین دفعہ بھارت کے دورے پر جاچکے ہیں تو دوبار بھارتی وزیر اعظم جاپان کے دورے پر آچکے ہیں، بھارت نے جاپان کو دہلی سے ممبئی تک ہائی وے کی تعمیر کا ٹھیکہ دیا ہے، دوسری جانب جاپان نے بھارت سے 10ہزار آئی ٹی ماہرین کو کاروباری و ملازمتی ویزے دئیےہیں جبکہ اب بھارت جاپان کی جانب سے امداد حاصل کرنے والا سب سے بڑا ملک بھی بن گیا ہے اور جاپان کے درجنوں امدادی منصوبے بھارت میں پایہ تکمیل کے قریب ہیں۔

تجارتی تعلقات میں پیش رفت کے بعد دونوں ممالک نے دفاعی تعلقات میں فروغ کے لیے کام شروع کیا تو سب سے پہلے امریکا کی رضامندی کے بعد جاپان نے بھارت کے ساتھ سول نیوکلیئر سپلائر گروپ کے حوالے سے معاہدہ کرکے خطے کے دونوں اہم ممالک پاکستان اور چین کو پریشانی میں مبتلا کر دیا۔

جاپان کے اندر سے ہی اپوزیشن جماعتوں نے جاپانی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا، کیوں کہ جاپانی آئین کے مطابق جاپان ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو پر کوئی بھی کام نہیں کرے گا جبکہ بھارت نے آج تک ایٹمی عدم پھیلائو کے منصوبے این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے ہیں لہٰذا اگر جاپان بھارت کے ساتھ کسی بھی طرح کا ایٹمی معاہدہ کرتا ہے تو یہ جاپانی آئین کی خلاف ورزی شمار ہوگا جس کے بعد جاپانی حکومت نے فوری طور پر بھارت کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔

حال ہی میں جاپانی حکومت کی جانب سے 1اعشاریہ 3ارب ڈالر کی لاگت کے 12 انتہائی جدید ترین بحری جنگی ہوائی جہاز US-2i ShinMaywa جو سمندر میں کسی بھی جنگی جہاز کو ڈھونڈنے اور ریسکیو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کی بھارت کو فروخت کا اعلان کیا گیا تو پاکستان اور چین نے اس ڈیل پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔

چین کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ چین کو جاپان اور بھارت کے ریاستی تعلقات پر اعتراض نہیں ہے تاہم جاپان نے یہ جہاز انتہائی کم قیمت پر بھارت کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو صرف چین کی سلامتی کے خلاف اقدام کے طور پر کیا گیا، جس کی چین مذمت کرتا ہے۔

تاحال 1اعشاریہ 3ارب ڈالر کی یہ ڈیل منسوخ ہوتی نظر آ رہی ہے کیونکہ بھارتی بحریہ نے بھی ان جہازوں کو نہ خریدنے کے حق میں فیصلہ دیا ہے جس کی کچھ تکنیکی وجوہات بیان کی گئی ہیں، جبکہ بعض خبروں کے مطابق بھارت میں دفاعی سودوں پر انتہائی بھاری کمیشن اور کک بیک وصول کیا جاتا ہے جبکہ جاپان کے ساتھ ہونے والی اس ڈیل میں کسی بھی طرح کا کمیشن اور کک بیک حاصل ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا لہٰذا بھارتی حکام نے اس سودے کے خلاف فیصلہ کیا۔

حقیقت یہی ہے کہ جاپان کا بھار ت کے ساتھ کسی بھی طرح کا دفاعی معاہدہ چاہے وہ چین کے تناظر میں ہی کیوں نہ ہو اس سے پاکستان کا متاثر ہونا لازمی امر ہے کیونکہ بھارت کے پاس جو بھی ہتھیار ہوں گے وہ پاکستان کے خلاف بھی استعمال ہوسکتے ہیں۔

جاپان اور بھارت کا ایک اور مشترکہ مفاد دونوں ممالک کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کا امیدوار ہونا بھی ہے جس کے لیے دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی حمایت کا اعادہ بھی کیا ہے لیکن جہاں جاپان کے روس، شمالی و جنوبی کوریا اور چین کے ساتھ سرحدی تنازعات ہیں تو وہیں بھارت کے پاکستان کے ساتھ کشمیر کے ایشو پر انتہائی اہم تنازعات بھی اس کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بننے میں رکاوٹ ہیں، جبکہ چین بھی کبھی نہیں چاہے گاکہ جاپان اور بھارت میں سے کوئی بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بنے، اس لیے وہ اپنا ویٹو پاور بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔

دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان، بھارت، چین اور جاپان جو ایشیاء کی اہم ترین طاقتیں ہیں کس طرح باہمی مسائل حل کرتی ہیں یا چاروں ممالک کے درمیان موجود تنازعات خطے کے 2 ارب سے زائد عوام کے بہتر مستقبل کے لیے خطرے کا سبب ہی بنے رہیں گے۔