دیوانے یاد آتے ہیں

February 06, 2019

شاعر عوام حبیب جالب نے اگر اپنی زندگی میں کبھی ’’یوٹرن‘‘ لیا ہوتا تو اس کے بچے بھی امریکہ میں پڑھتے اور وہ ہر گرمی میں انگلستان میں ہوتا۔ اس کی بیٹی کوکچھ عرصے ٹیکسی چلانے کی ضرورت ناپڑتی گھر کے اخراجات کے لئے۔ ایسے ہی کچھ درویش صفت لوگوں کی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھ میں پھر ایک امید پیدا ہوتی ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں تاریخ کے ان کرداروں پر حوصلہ دینے کے لئے نظر ڈال لینا چاہئے ورنہ ہم تو کسی اور جانب ہی چل پڑے ہیں۔

’’ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نے مانتا میں نہیں جانتا‘‘ سے لے کر ’’ظلمت کو ضیاء سر سر کو صباء بندے کو خدا کیا لکھنا‘‘ تک جالب کا ایک طویل سفر ہے مگر ایوب خان سے لے کر جنرل ضیاء تک کسی حکمراں کے لئے قصیدہ گوئی نہیں کی نا ہی دربار میں کبھی حاضری دی۔ عملی طور پر جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہا۔ اس کی شاعری اس کی زندگی میں بھی جھلکتی ہے۔

ایک بار مال روڈ پر پیدل جارہے تھے کہ ایک گاڑی قریب آکر رکی جس پر سرکاری نمبر پلیٹ لگی ہوئی تھی۔ ایک شاعر و دانش ور گاڑی سے اترے اور جالب سے بولے ’’حضور میں آپ کو آگے تک چھوڑ دیتا ہوں‘‘۔ جواب نے انہیں لاجواب کردیا۔ ’’بھائی، اگر منزل تک پیدل ہی جانا ہے تو آج گاڑی میں بیٹھ کر کیا کروں گا‘‘۔ یہ کہا اور آگے بڑھ گئے۔

جالب ہی جیسے ایک درویش صفت انسان صحافی رہنما نثار عثمانی بھی تھے جن سے خود جالب بہت متاثر تھے۔ جنرل ضیا نے صحافیوں کو الٹا لٹکانے کی دھمکی دی تو عثمانی صاحب نے پریس کانفرنس میں ہی حساب برابر کردیا۔ ’’جناب صدر، اللہ نے کچھ کام بندے کے سپرد نہیں کئے۔ آپ بھی مارنے اور لٹکانے کا شوق پورا کرلیں‘‘۔

ایک بار دونوں بیمار پڑے تو ایک ہی اسپتال میں داخل تھے اور بستر بھی ساتھ ساتھ تھا۔ جو بھی کوئی جالب کی مزاج پرسی کے لئے آتا تو وہ اس کو پہلے عثمانی صاحب کی طرف بھیجتے اور کہتے، ’’میں تو اس کو فولو کرتا ہوں‘‘۔

عثمانی صاحب خود مولانا حسرت موہانی کے پرستاروں میں سے تھے۔ جیل گئے تو مشقت بھی کی، دریاں اور سوت کا کام سیکھا۔ رہا ہوئے تو جیلر سے کہا، ’’اب اگر بیروزگار ہوتے تو یہ کام آئے گا‘‘۔

ممتاز سیاست دان جاوید ہاشمی نے ایک بار بتایا کہ 1977کی تحریک کے دوران ملک میں مارشل لا لگنے کی خبریں آرہی تھیں۔ ہم لوگ کوٹ لکھپت جیل میں تھے۔ سیاسی قیدی خوش تھے کہ جلد ہی رہائی ملنے والی ہے مگر ایک شخص کونے میں سگریٹ کا کش لگائے گم سم بیٹھا تھا۔ میں نے قریب جاکر ان سے پوچھا۔ ’’عثمانی صاحب، کیا آپ خوش نہیں ہیں‘‘۔

کہنے لگے:بھائی ایک بڑی جیل کی تیاری ہورہی ہے اور آپ چاہتے ہیں کہ میں خوش ہوں۔ رہائی مل بھی گئی تو واپس یہیں آنا ہے۔ ایک سال بعد ہی تحریک آزادی صحافت شروع ہوئی جو کئی ماہ جاری رہی۔ اس میں چار سو کے قریب صحافی، اخباری کارکن اور دیگر نے بھی گرفتاریاں دیں۔سیاسی اور صحافتی تحریکوں میں آپ کو ایسے ایسے گمنام کارکن اور رہنما ملیں گے جنہوں نے بہادری سے جیل کاٹی، ٹارچر برداشت کیامگر کبھی نظریے پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ ایسی بھی مثالیں ہیں کہ بہت سے لوگوں نے اصولوں پر ’’یوٹرن‘‘ لے لیا۔

مولانا ستار ایدھی اپنی مثال آپ نے ہزاروں افراد کی لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے دفن کیا۔ بم دھماکہ ہو یا آگ لگ گئی ہو۔ دنیا کے کسی حصہ میں قدرتی آفات آئے ایدھی صاحب موجود ہوتے تھے۔ پوری زندگی ایک ہی انداز میں گزار دی۔ سفر کا آغاز ایک ایمبولنس سے کیا اور انتقال ہوا تو دنیا کی سب سے بڑی ایمبولنس سروس چھوڑ کر گئے۔ جو کام ریاست کا تھا وہ ایک شخص کر گیا۔ اگر کوئی تبدیلی لانا چاہے تو اسے لانے میں لمبی چوڑی ٹیم کی ضرورت نہیں پڑتی صرف سوچ میں تبدیلی لانا ہوتی ہے۔ انہیں بھی زور زبردستی سیاست میں لانے کی کوشش کی گئی مگر وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ سیاست میں آئے بغیر بھی فلاحی کام کئے جاسکتے ہیں۔ شاید اس طرح ریاست اپنی ذمہ داری محسوس کرے۔

ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی تو طالب علمی کے زمانے میں سیاست میں متحرک تھے اور اس تحریک میں سرگرم تھے۔ جس پر پہلی بار 1953میں پولیس نے گولی چلائی جس سے 8طالب علم شہید ہوئے۔ مگر عملی سیاست میں آئے بغیر بھی انہوں نے خدمت کی وہ مثالیں قائم کیں جو شاید اصل سیاسی نظریہ ہے۔ SIUTکی شکل میں ایک ایسا ادارہ اور ٹیم تشکیل دی کہ آج لاکھوں لوگوں کا مفت علاج ہوتا ہے اور اس اسپتال میں کوئی VIPکمرہ نہیں ہے۔

ایک بار رضوی صاحب شدید بیمار ہوئے اور ICUمیں داخل ہونا پڑا۔ مشہور کالم نویس اردشیر کائوس جی انہیں دیکھنے آئے تو اپنے مخصوص انداز میں ایک عجیب جملہ کہا ’’ادیب، سالہ تم کو مرنے کا نہیں۔ اس دنیا کو تمہاری ضرورت ہے۔ مرنے کے لئے سالہ ہم ہیں نا‘‘۔ کوئی زندہ معاشرہ ایسے ہی لوگوں کی بدولت قائم رہتا ہے۔ ان درویش صفت لوگوں کی اصل خوبی یہ ہوتی ہے کہ ان میں منافقت نہیں ہوتی۔ وہ اپنے کام میں مگن رہتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ان لوگوں کے پاس کبھی اختیار نہ آیا ہو۔ آدمی کا تو اصل امتحان ہی تب ہوتا ہے جب وہ بااختیار ہو اور پھر بھی اس کی زندگی کے انداز میں تبدیلی نا آئے۔

دنیا آج جنوبی افریقہ کو اگر جانتی ہے تو نیلسن منڈیلا کے نام سے۔ اس کی پوری زندگی کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ زندگی کے26سال جیل میں گزارنے کے بعد رہائی ملی اور اقتدار ملا تو پہلی رات اس علاقے میں گزاری جہاں سے نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ وہ چاہتاتو گوروں سے سیاہ فام افراد کے ظلم کا بدلا لے سکتا تھا مگر اس نے تو مثال قائم کرنا تھی خود مثال بننا تھا صرف اپنے لوگوں کے لئے نہیں بلکہ دنیا کے لئے۔

نظریاتی لڑائی لڑنا یا اپنے نظریہ پر قائم رہنا ذرا مشکل کام ہوتا ہے اور اس کے لئے بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے۔ آپ کی سیاست کا عکس آپ کی زندگی میں بھی نظر آنا چاہئے۔ اگر آپ عام آدمی کی بات کرتے ہیں تو آپ کی زندگی بھی عام انسانوں جیسی ہونی چاہئے۔ ویسے منافقت میں تو آپ کچھ بھی کرسکتے ہیں مگر پھر آپ مثال نہیں بن سکتے اور شاید اسی لئے ایسے رہنما ہمیں کم ہی ملے کہ جن کے بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھے اور بیمار ہوئے تو سرکاری اسپتال میں داخل ہوئے۔ ادب میں جالب کی شاعری کو کیسے دیکھا جاتا ہے یہ تو اہل دانش جانے مگر وہ یاد ضرور آتا ہے یہ کہتے ہوئے کہ

کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالب

چاروں جانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں