ٹیکس کے مسائل

January 02, 2013

اراکین پارلیمان کے ایک گروپ کو اپنے گزشتہ سال کے سب سے غیر ذمے دارنہ بیان کی قیمت لازماً چکانی ہو گی جنہوں نے ایم پی ایز کے ٹیکس ادا کرنے کے ریکارڈ کو ایک رپورٹ میں سازش قرار دیا اور بجائے پیغام کے پیغام بر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ’ری پریزینٹیشن ود آؤٹ ٹیکسیشن‘ میں سامنے آنے والے حقائق اہم ہیں تا ہم ایک ایسے ملک میں قطعاً حیران کن نہیں جہاں ایک فی صد سے بھی کم افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس مطالعے میں پتہ چلا کہ کم و بیش70فی صد اراکین پارلیمان نے2011میں اپنا ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرایا۔73قانون سازوں کے پاس قومی ٹیکس نمبر نہیں تھا۔ کابینہ کے نصف سے زائد وزراء نے ریٹرن جمع کرانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ رپورٹ میں پتہ چلا کہ قانون سازوں کی بڑی تعداد ٹیکس نہیں دیتی جنھیں سب سے پہلے بنائے گئے قوانین کا پابند ہونا چاہئے تھا۔ رپورٹ کے نتیجے کے مطابق یہ مسئلہ سب سے اوپر سے شروع ہوتا ہے۔ خود ری وی نیو پالیسیاں بنانے، حکومت چلانے اور ٹیکس جمع کرانے والے افراد دوسروں کے مثال بننے میں ناکام ہو چکے ہیں‘۔ پارلیمان میں موجود تقریباً تمام اراکین پارلیمان نے اس رپورٹ کی یک سر تردید کر دی۔ متعدد نے اس رپورٹ کو ’سیاست دانوں کو بدنام‘ کرنے کی کوشش قرار دیا اور اس کے مندرجات پر بات کرنے کے بجائے اس کے اجراء کے وقت پر سوال اٹھایا جب کہ دیگر کچھ نے خود کو نشانہ بنائے جانے کا واویلا مچایا۔
اپنی ذمہ داری کا بوجھ دوسروں کے سر ڈالنے کے موقف کو اس وقت تائید ملی جب قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی نے ایف بی آر سے کہا کہ وہ اس بابت رپورٹ تیار کرے کہ ججوں، جنرلوں اور سول سرونٹس نے کتنا ٹیکس ادا کیا۔ اس معاملے کو وقت کی دھول میں چھپانے کے بجائے اراکین پارلیمان کو اس معاملے پر بحث کا انعقاد کرنا چاہیے تھا جس میں ٹیکس چوروں کی سرزنش کی جاتی، رپورٹ میں اگر اغلاط تھیں تو انہیں درست کیا جاتا اور سب سے بڑھ کر اس بات کو اجاگر کیا جاتا کہ ریاست کی ٹیکس جمع کرنے میں ناکامی کے کتنے سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ رپورٹ کی روشنی میں اراکین پارلیمان کو سوچنا چاہیے تھا کہ ملک میں لوگ ٹیکس کیوں ادا نہیں کرتے اور اس مسئلے کا حل نکالنے کے طریقے تجویز کرنے چاہے تھے۔ کیوں کہ پاکستان میں ٹیکس محصولات کی کم ترین سطح ملک کے تمام تر اقتصادی مسائل کی جڑ ہے۔ داخلی وسائل کی پیداوار میں ناکامی پاکستان کے معاشی جمود کی بنیاد ہے جس کے باعث ملکی معیشت آج آئی سی یو میں پڑی ہے۔ ایک عشرے قبل ملک میں ٹیکس کے نظام کی اصلاح کے لئے تشکیل کردہ ایک ٹاسک فورس نے کھلی وارننگ دی تھی کہ اگر ملک میں ٹیکس محصولات میں قابل قدر اضافہ نہیں ہوا تو ملک کو کسی بھی طور درست طریقے سے نہیں چلایا جا سکے گا۔ اس وارننگ کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا اور بیرونی امداد اور نجی ترسیلات زر کی وجہ سے کبھی ٹیکس اصلاحات کی زحمت گوارہ نہیں کی گئی۔ کمزور سیاسی ارادے، نیم دلانہ اصلاحات، بیرونی امداد پر انحصار اور طاقت ور مفادات نے داخلی وسائل کو متحرک نہیں ہونے دیا۔ یکے بعد دیگرے آنے والی کسی بھی حکومت کی طرف سے محصولات میں اضافے کے عزم کی غیر موجودگی کا سبب وہ مراعایات یافتہ طبقہ ہے جو خود پر ٹیکس عائد نہیں ہونے دیتا کیوں کہ اس طرح اس کے معاشی مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ اس طرح آج پاکستان ابدی معاشی بحرانوں کی دلدل میں پھنس چکا ہے جنہیں صرف بیرونی امداد کی ذریعے عارضی پر ’حل‘ کر لیا جاتا ہے اور امداد کی پہلی قسط کے حاصل ہوتے ہی ہمارے حکام تمام وابستہ شرائط سے الٹے پاؤں پھر جاتے ہیں۔
ٹیکس اصلاحات کے کھوکھلے نتائج سب کے سامنے موجود ہیں۔ جی ڈی پی کی فی صد کے اعتبار سے ملک میں ٹیکس کئی عشروں سے جامد ہے۔ یہ شرح1990میں11فی صد کے آس پاس تھی جو گزشتہ عشرے میں کم ہو کر تا حال9فی صد پر برقرار ہے جو تمام دنیا میں سب سے کم ہے۔ یہ صرف اس بات کا اشارہ نہیں کہ ملک کو کتنے خراب انداز سے چلایا جا رہا ہے۔ 1995میں ٹیکس دہندگان کی تعداد ایک ملین کا چوتھائی تھی جو 2000 میں ایک ملین ہو گئی۔2011 میں یہ تعداد3.1 ملین تھی مگر صرف1.5ملین نے ٹیکس ریٹرن جمع کرائے۔ ٹیکس ادا کرنے والے افراد کی تعداد در حقیت 2007-08میں آبادی کے ایک فی صد سے کم ہو کر 2010-11میں صرف0.92رہ گئی۔
اگر ان اعداد و شمار کو 2011کے ہاؤس ہولڈ سروے کے نتائج کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ اور زیادہ سنگین ہو جاتے ہیں۔ ملک میں4.5ملین افراد میں سے جو ٹیکس ادا کرنے کے قابل ہیں صرف17فی صد…ہر چھ میں سے ایک…باقاعدہ طور پر ٹیکس ادا کرتے ہیں جب دیگر ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ ایک بنیادی ایشو یہ ہے کہ ملک کی رسمی معیشت کے بڑے حصے پر ٹیکس عائد نہیں ہے جس کی وجہ سے ملک کا ایک بڑا مراعات یافتہ طبقہ زرعی ٹیکس ادا نہیں کرتا۔ زراعت جی ڈی پی کا20فی صد ہے جہاں لیبر فورس کی شرح40فی صد ہے مگر کل محصولات میں اس کا حصہ صرف ایک فی صد ہے۔ اسی طرح سروسز سیکٹر کا کل محصولات میں حصہ محض16فی صد ہے۔ ٹیکس ادا کرنے کے قابل ایک ملین سے زائد ریٹیلروں میں سے صرف16لاکھ ٹیکس ادائیگی کیلئے رجسٹرڈ ہیں جن میں سے28ہزار سے بھی کم نے گزشتہ سال ٹیکس ادا کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رسمی معیشت کی70فی صد پر یا تو معمولی سا ٹیکس لاگو ہے یا بالکل لاگو نہیں اور وہ ٹیکس ادا نہیں کرتی اور اگر غیر رسمی معیشت کو بھی اعداد و شمار میں شامل کیا جائے جس کا کاغذات میں اندارج نہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ملکی معیشت کا ایک بہت بڑا حصہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔ نہ صرف یہ کہ موجودہ ٹیکس نظام غیر لچکدار ہے بلکہ یہ غیر مساویانہ بھی ہے جہاں ان لوگوں پر بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے شدید ترین بوجھ ڈال دیا گیا ہے جو اسے برداشت کرنے کے سب سے کم اہل ہیں جب کہ امراء اور طاقتور طبقے کو ’قانونی‘ فرار کی راہیں فراہم کر دی گئی ہیں۔ ایس آر او رجیم اس حقیقت کی واضح ترین مثال ہے جس کے تحت خصوصی مفادات کے مد نظر افراد اور اداروں کو کھربوں روپے کی مراعات دی گئی ہیں۔ یہ نظام نہ صرف اقرباء پروری کو پروان چڑھاتا ہے بلکہ مساوات کے کسی بھی نظرئیے کے منافی ہے۔ عدم مساوات پر مبنی ٹیکس کا نظام ملک میں کم ترین محصولات اور ٹیکس قوانین کی عدم پابندی کا بنیادی سبب ہے۔ کچھ افراد اور سیکٹروں پر بھاری ٹیکس عائد کیا جاتا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر براہ راست ٹیکس کی مد میں سب سے زیادہ ادائیگی کرتا ہے۔ تنخواہ دار طبقہ تمام ٹیکسوں کا تین فی صد جمع کراتا ہے۔ ٹیکس انتظامیہ میں کم زوری کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری کر لیا جاتا ہے۔2001کی ٹاسک فورس کی رپورٹ کے مطابق ٹیکسوں کا50فی صد کبھی بھی ملکی خزانے تک نہیں پہنچتا جس سے پتہ چلتا ہے کہ امراء قانون کی خلاف ورزی کرنے میں کتنے طاقتور ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے کے تخمینے کے مطابق طاقتور افراد اور ٹیکس حکام کی ملی بھگت کے باعث تین بلین ڈالر کے مساوی ٹیکس کی رقم قومی خزانے تک نہیں پہنچ پاتی۔ براہ راست ٹیکسوں کے نفاذ میں ناکامی نے بالواسطہ ٹیکسوں پر انحصار کی راہ دکھائی ہے۔ مثال کے طور پر دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں پاکستانی قوم اپنی آمدنی کا بڑا حصہ پٹرول پر عائد ٹیکس کی مد میں ادا کرتی ہے۔
کل محصولات میں براہ راست ٹیکسوں کا حصہ39فی صد، سیلز ٹیکس43، کسٹم ڈیوٹی12اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی6فی صد ہے۔ مگر بالواسطہ ٹیکس بھی بجٹ کی ضروریات کو پورا کرنے میں بری طرح نا کافی ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ وطن عزیز میں جب تک دائمی مالی بحرانات کا حل نکالنے کے علاوہ آئندہ ترقی کیلئے وسائل پیدا نہیں کئے جائیں گے ٹیکس محصولات میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ ٹیکس محصولات میں جی ڈی پی کی فی صد میں تین تا چار فی صد اضافے کے بغیر خسارے کو بیرونی امدا کے ذریعے بھرنے کا عمل ختم نہیں کیا جا سکتا جس کے ملکی معیشت پر سنگین ترین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ افراط زر اور غریب عوام پر ظالمانہ ٹیکس میں کمی لازمی ہے جس نے حالیہ برسوں میں غربت میں زبردست اضافہ کیا ہے۔ اس تناظر میں پیدا ہونے والا اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کس طرح تباہ حال انفرا اسٹرکچر کی بحالی کیلئے ٹیکس میں اضافے کے بغیر محصولات کی وصولی میں مساوات اور کارکردگی کو یقینی بناتے ہوئے بڑھتے ہوئے مالی خسارے اور معاشی جمود کی دلدل سے نکلنے کی راہ پا سکتا ہے۔ اراکین پارلیمان کو آئینہ دکھانے والوں پر جھپٹنے کے بجائے اس سوال کا جواب دینے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔