سی پیک سےمتعلق سیمینار

February 11, 2019

گزشتہ دنوں بحریہ یونیورسٹی نے کراچی میں ’’سی پیک اور اسکے معاشی، بحری اور تیکنیکی چیلنجز‘‘ پر ایک اہم سیمینار کا انعقاد کیا جس میں مجھے اسپیکر کی حیثیت سے مدعو کیا گیا تھا۔ دیگر اسپیکرز میں سینیٹ کی کمیٹی برائے سی پیک کی چیئرپرسن سینیٹر شیری رحمٰن، اُن کے شوہر ندیم حسین، اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر سلیم رضا، بحریہ یونیورسٹی کے ڈائریکٹر کموڈور ارشد خان، مختار احمد اور ٹی وی اینکر ردا سیفی شامل تھیں جبکہ ماڈریٹر کے فرائض یونیورسٹی کے شعبہ سوشل سائنسز کے سربراہ ڈاکٹر بشیر احمد نے انجام دیئے۔ اس موقع پر یونیورسٹی کا آڈیٹوریم ایم بی اے کے طلباء و طالبات سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور اندازہ ہوا کہ نوجوان نسل سی پیک منصوبوں کے بارے میں بہت دلچسپی رکھتی ہے۔ میں سی پیک پر کئی کالم لکھ چکا ہوں جس میں مختلف زاویوں سے اہم معلومات فراہم کی تھیں لیکن اس سیمینار کا منفرد موضوع ہونے کی وجہ سے اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔

سی پیک کا منصوبہ ون بیلٹ ون روڈ OBOR)) طویل المدت ریسرچ پر مبنی ایک طویل المیعاد منصوبہ ہے جو دنیا کے 65ممالک کیلئے ہے۔ یہ منصوبہ چین نے علاقائی تجارت کو فروغ دینے کیلئے پاکستان میں شروع کیا جس کے فوائد چین، پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کو ملیں گے۔ اِس وقت چین کو اپنے وسط سے یورپ اشیاء بھیجنے کیلئے ٹوٹل 19132میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے جس میں سینٹرل چین سے شنگھائی پورٹ تک زمینی راستہ 2625میل اور شنگھائی پورٹ سے یورپ تک کا بحری فاصلہ 16560میل ہے جس میں تقریباً 50دن لگتے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری مکمل ہونے کے بعد یہ فاصلہ کل 2295میل رہ جائیگا جس میں زمینی فاصلہ 1750میل اور سمندری فاصلہ 545میل ہے جس کو طے کرنے میں صرف 17دن لگیں گے۔ اس کے علاوہ 40فٹ کنٹینر کے شنگھائی سے ہیمبرگ بھیجنے میں تقریباً 3000ڈالر فریٹ لگتا ہے۔ اس شپمنٹ کو گوادر پورٹ سے بھیجنے میں فریٹ صرف ایک ہزار ڈالر تک رہ جائے گا۔ اسی طرح ایک 40فٹ کنٹینر ابوظہبی سے شنگھائی بھیجنے کی لاگت دو ہزار ڈالر ہے اور اسکو شنگھائی پورٹ پہنچنے میں 16دن لگتے ہیں لیکن گوادر سے فریٹ اور ٹرانزٹ ٹائم ایک تہائی رہ جائے گا لہٰذا سی پیک منصوبے کی تکمیل کے بعد چین کی اربوں ڈالر کی ایکسپورٹس اور مڈل ایسٹ سے اربوں ڈالر پیٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ ٹرانزٹ ٹائم اور کرائے کی لاگت صرف ایک تہائی رہ جائیگی جس سے چین کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہوگا۔ اسکے علاوہ موجودہ سمندری راستے سے چین کو پیٹرولیم مصنوعات امپورٹ کرنے میں ہمروز میں امریکی بحری بیڑے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو چین کی نیشنل سیکورٹی کیخلاف ہے جبکہ گوادر پورٹ اور سی پیک راہداری کے راستے چین کو اس طرح کا کوئی خطرہ نہیں۔ اسی تناظر میں حال ہی میں سعودی عرب نے گوادر میں آئل ریفائنری قائم کرنیکا عندیہ دیا ہے اور ایک اعلیٰ سطحی سعودی وفد نے گوادر کا دورہ بھی کیا تھا تاکہ سعودی عرب چین کو پیٹرولیم مصنوعات گوادر سے فراہم کر سکے۔ پاکستان کو اپنی تجارتی راہداری سے ان اشیاء کی نقل و حرکت پر پانامہ اور سوئس کینال کی طرح ٹرانزٹ فیس حاصل ہو گی۔ اسکے علاوہ چین اپنی پیداواری لاگت اور اجرتوں میں اضافے کی وجہ سے ایسی صنعتیں جس میں زیادہ لیبر درکار ہے، کو بیرون ملک منتقل کرنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس (FPCCI) نے اپنا ایک خصوصی آفس گوادر میں قائم کیا ہے۔ چین کے مغربی صوبے کاشغر اور گوادر پورٹ کے مابین انفرااسٹرکچر بن جانے کے بعد چین ان صنعتوں کو پاکستان کے اسپیشل اکنامک زونز میں منتقل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس سے پاکستان میں نئی ملازمتوں اور ایکسپورٹ کے مواقع پیدا ہونگے۔ دنیا کی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ (R&D) میں چین کا حصہ 21فیصد ہے جبکہ امریکہ کا حصہ 26فیصد ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ چین کی ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ سے فائدہ اٹھا کر اپنی صنعتوں کو زیادہ باصلاحیت اور پیداواری بنائے۔

معاشی چیلنجوں میں جہاں سی پیک منصوبوں نے ملک میں 10,000میگا واٹ کی اضافی بجلی پیدا کی ہے، وہیں سی پیک منصوبوں کی مشینری کی امپورٹ نے تجارتی خسارے میں ریکارڈ اضافہ اور ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو ڈالا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں ایسے سیفٹی وال لگائے گئے ہیں جس سے چین سے خام مال کی ڈیوٹی فری سستی امپورٹ سے پاکستان کی مقامی صنعتوں کو نقصان نہ پہنچے اور ان منصوبوں میں زیادہ سے زیادہ مقامی لیبر کو استعمال کیا جائے تاکہ ملک میں بے روزگاری میں کمی آئے۔ پاکستان کے پسماندہ صوبوں خصوصاً بلوچستان کی ترقی کو ملحوظ خاص رکھا جائے اور زیادہ سے زیادہ بلوچ نوجوانوں کو چینی زبان سیکھنے کے مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ بلوچستان میں احساسِ محرومی ختم ہو۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ سے میری اسلام آباد میں ملاقات میں انہوں نے سی پیک امپورٹ اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کی وجہ سے 2018ء سے پاکستان سے فارن ایکسچینج کے اضافی انخلاء کے خدشات کا اظہار کیا تھا جو اب بالکل سچ ثابت ہو رہا ہے۔ چین کی مستقبل میں دنیا سے امپورٹ 8کھرب ڈالر ہو جائے گی اور پاکستان کو اس میں اپنا حصہ بڑھانا ہوگا۔ موجودہ حالات میں چین کی پاکستان کو ایکسپورٹ 18ارب ڈالر جبکہ پاکستان کی چین کو ایکسپورٹ بمشکل 2ارب ڈالر ہیں اور اس طرح 16ارب ڈالر کا ایکسپورٹ سرپلس چین کے حق میں ہے جس کو ہمیں اپنی ایکسپورٹ بڑھا کر کم کرنا ہوگا۔ پاک چین آزاد تجارتی معاہدے (FTA)کے تحت پاکستان نے چین کو بے شمار اشیاء ڈیوٹی فری امپورٹ کی اجازت دی ہے جبکہ پاکستان سے چین کو ایکسپورٹ میں ٹیکسٹائل سمیت بے شمار اشیاء پر ڈیوٹی فری مراعات حاصل نہیں جو چین نے آسیان کے 10رکن ممالک انڈونیشیا، تھائی لینڈ، سنگاپور، ویتنام، ملائیشیا، فلپائن، میانمار، کمبوڈیا، لیوس اور برونائی کو دی ہوئی ہیں۔ پاکستان کو چاہئے کہ وہ پاک چین آزاد تجارتی معاہدے کے دوسرے فیز میں ان اشیاء کو چین سے ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کرنے کی مراعات حاصل کرے۔

حکومت نے سی پیک منصوبوں کی سیکورٹی کیلئے اسپیشل ٹاسک فورس 88تشکیل دی ہے۔ اس کے علاوہ میری ٹائم سیکورٹی کیلئے پاکستان نیوی کو خطے میں محفوظ بحری ماحول فراہم کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ سوال جواب کے سیشن میں بتایا گیا کہ سی پیک منصوبوں میں پاکستان کیلئے بلاشبہ بے شمار فوائد ہیں جنہیں حاصل کرتے وقت ہمیں مقامی صنعت کے خدشات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا تاکہ یہ منصوبے دونوں ممالک کیلئے Win Winاور گیم چینجر ثابت ہوں۔