کراچی یونیورسٹی میں سی پیک کانفرنس

February 13, 2019

قوموں کی تاریخ میں کچھ منصوبے ایسے ہوتے ہیں جو اُن کی تقدیر بدل دیتے ہیں۔ سی پیک بھی ایک ایسا منصوبہ ہے جو پایہ تکمیل تک پہنچنے کے بعد پاکستان کی تقدیر بدلنے اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ یہ پروجیکٹ نہ صرف پاکستان کیلئے گیم چینجر بلکہ خطے کیلئے فیس چینجر بھی ثابت ہوگا اور ہر پاکستانی اس کی اہمیت سے واقف ہے۔ یونیورسٹی آف کراچی کے شعبہ اپلائیڈ اکنامک ریسرچ سینٹر (AERC) کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ ہر سال ایک اہم موضوع پر انٹرنیشنل کانفرنس کا انعقاد کرتا ہے جس میں پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک کے مندوبین کو بھی بطور اسپیکر مدعو کیا جاتا ہے۔ اس سال بھی شعبہ نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے کراچی یونیورسٹی میں سی پیک پر ایک اہم انٹرنیشنل کانفرنس کا انعقاد کیا جس کا موضوع ’’سینٹرل ایشین ریجنل اکنامک انٹرگیشن اینڈ سی پیک پروسپیکٹ چیلنجز اینڈ دی وے فارورڈ‘‘ تھا۔ کانفرنس میں سابق گورنر اسٹیٹ بینک اور وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر عشرت حسین، آئی بی اے کے ڈاکٹر فرخ اقبال، سابق سیکرٹری خزانہ وقار مسعود، سلمان فاروق، ڈاکٹر قیصر بنگالی، معین الدین حیدر اور سلیم رضا نے بطور اسپیکر شرکت کی جبکہ کانفرنس میں بیرون ملک سے آئے ہوئے فلپائن کے ڈاکٹر گولانگ ونگ اور امریکہ کے ڈاکٹر گوباد ابادوغ بھی شریک تھے۔ کانفرنس کا افتتاح صدر پاکستان عارف علوی نے کرنا تھا مگر وہ اپنی مصروفیات کے باعث اس اہم کانفرنس میں شرکت نہ کرسکے۔ اسی طرح کانفرنس کی اختتامی تقریب میں گورنر سندھ عمران اسماعیل نے شرکت کرنا تھی مگر وہ آخری لمحات میں شریک نہ ہوسکے۔

میرے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ مجھے بھی اس اہم موضوع پر منعقدہ کانفرنس میں بطور پینلسٹ مدعو کیا گیا تھا۔ اس موقع پر یونیورسٹی کا آڈیٹوریم طلباو طالبات سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا جس سے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ نوجوان نسل سی پیک منصوبوں میں دلچسپی رکھتی ہے۔ میں نے اپنی تقریر میں سی پیک پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گو کہ ہر حکومت حتیٰ کہ اسٹیبلشمنٹ بھی سی پیک کا کریڈٹ لینا چاہتی ہے جبکہ حقیقت میں چین کی حکومت نے پاکستان کو اس منصوبے کی تجویز پیش کی جس پر عملدرآمد نواز شریف کے دور حکومت میں ہوا۔ سی پیک منصوبہ ون بیلٹ ون روڈ (B&R) کا ایک طویل المدت منصوبہ ہے جو دنیا کے ممالک کو سڑکوں کے نیٹ ورک سے ایک دوسرے سے ملائے گا۔ یہ منصوبہ علاقائی تجارت کو فروغ دینے میں سنگ میل ثابت ہوگا اور اس کے فوائد چین اور پاکستان دونوں کو حاصل ہوں گے۔ منصوبے پرچین کی 65ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کوئی قرضہ یا گرانٹ نہیں بلکہ زیادہ تر سرمایہ توانائی کے منصوبوں جبکہ 12ارب ڈالر انفرااسٹرکچر پر لگائے گئے ہیں۔ یہ تاثر غلط ہے کہ سی پیک منصوبے قرضے واپس کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ حقیقت یہ ہے کہ سی پیک سے منسلک منصوبے وائبل پروجیکٹس ہیں جو اپنے منافع سے قرضوں کی ادائیگی کریں گے، اس لئے اِن افواہوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ میں نے بتایا کہ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد مشیر تجارت عبدالرزاق دائود نے ایک بین الاقوامی جریدے کو انٹرویو میں یہ کہہ کر سب کو حیران کردیا کہ ’’حکومت پاکستان سی پیک منصوبوں پر نظرثانی کا ارادہ رکھتی ہے اور سی پیک پر چین سے دوبارہ مذاکرات کئے جائیں گے اور یہ ممکن ہے کہ سی پیک منصوبوں میں تاخیر ہو جائے‘‘ بعد ازاں حکومت پر تنقید کے بعد اس بیان تردید سامنے آئی۔ میں نے اپنی پریزنٹیشن میں بتایا کہ سی پیک کی جلد از جلد تکمیل دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔ میں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ پاک چین تجارتی معاہدے کے تحت پاکستان نے چین کو بے شمار ڈیوٹی فری امپورٹ کی اجازت دی ہے جس سے پاکستان کی امپورٹ 18ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے جبکہ پاکستان کی چین کو ایکسپورٹ 2ارب ڈالر سے بھی کم ہے۔ اس طرح 16ارب ڈالر کا ایکسپورٹ سرپلس چین کے حق میں ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ چین میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس نے یہ تجویز دی کہ پاکستان چین کے ساتھ اپنے معاہدے پر نظرثانی کرے اور چین سے کہے کہ وہ ہمیں تمام مراعات دے جو اس نے بنگلہ دیش اور آسیان کے 10ممالک کو دے رکھی ہیں تاکہ چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے میں کمی لائی جاسکے۔

پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ گزشتہ عشرے میں بجلی کی کمی اور امن و امان کی ابتر صورتحال کے باعث ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر رہی۔ ایسے میں سی پیک پر چین کی 65ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان کیلئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ موجودہ دور میں چین کیلئے پریشانی کی بڑی وجہ ورکرز کی بڑھتی ہوئی اُجرتیں ہیں جس سے اس کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہورہا ہے۔ چین کے ایک ورکر کی اجرت جو 10سال پہلے 100ڈالر تھی، اب بڑھ کر 400ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے۔ چین کی یہ سوچ ہے کہ وہ ویلیو ایڈیشن کیلئے ایسے ممالک کا انتخاب کرے جہاں ورکرز کی اجرتیں کم ہوں تاکہ وہ وہاں اپنی انڈسٹریز منتقل کرسکے۔ چین کیلئے اس لحاظ سے پاکستان ایک آئیڈیل ملک ہے جہاں ورکرز کی اجرتیں چین سے ایک چوتھائی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چین ایسی انڈسٹریاں پاکستان میں لگانے کا ارادہ رکھتا ہے جس میں زیادہ لیبر لگتی ہو اور وہ پاکستان کے سستے لیبر سے فائدہ اٹھا کر اور اپنی مصنوعات میں ویلیو ایڈیشن کر کے اسے گوادر کے راستے دنیا میں ایکسپورٹ کر سکے۔ جس سے اسے دو فائدے حاصل ہوں گے۔ ایک طرف وہ پاکستان میں کم اجرت سے فائدہ اٹھائے گا جبکہ گوادر کے ذریعے شپمنٹ سے وقت اور فریٹ چارجز میں بھی کمی آئے گی اور وہ دن دور نہیں جب دشمنوں کی تمام تر مخالفتوں کے باوجود یہ پروجیکٹ پایہ تکمیل تک پہنچے گا جس سے پاکستان کی جی ڈی پی میں ایک فیصد اضافہ متوقع ہے۔ اپلائیڈ ڈپارٹمنٹ کی پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ خلیل، ڈائریکٹر AERC عظمیٰ ارم اور اُن کی ٹیم اس انٹرنیشنل کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے اس اہم موضوع پر کانفرنس کا انعقاد کیا جس سے یونیورسٹی کے نوجوان نسل کو سی پیک کے بارے میں آگاہی حاصل ہوئی تاکہ ان میں شعور میں پیدا کیا جاسکے اور وہ خود کو اس منصوبے کیلئے تیار کرسکیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)