غالب کا سُخن اور وجودِزن

February 15, 2019

دنیا میں ہر بڑے شاعر اور ہر بڑے فلسفی کا اپنا ندازِبیاں اور اسلوب ہوتاہے، پر مرزا غالبؔ جیسا اندازِ بیاں رکھنے والا سخنور نہ کبھی پیدا ہوا اورشاید نہ کبھی ہوگا۔ مولانا حالیؔ نے مرزا کو بہت قریب سے دیکھاتھا، وہ لکھتے ہیں کہ غالب بہت وسیع اخلاق کے مالک تھے، جو شخص بھی ان سے ملنے جاتا وہ اس سے بہت خندہ پیشانی سے ملتے اور جو شخص ایک بار ان سے مل لیتا تو اسے ہمیشہ مرزا سے ملنے کا اشتیاق رہتا تھا۔ دوستوں کو دیکھ کر وہ باغ باغ ہو جاتے تھے۔ ان کی خوشی میں خوش اور ان کے غم میں غمگین ہو جاتے تھے۔ اس لیے ان کے دوست ہر ملت و مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔

مرزا اسد اللہ بیگ خان عرف مرزا غالب نے 15فروری 1869ء کو دہلی میں وفات پائی۔ موقع کی مناسبت سے خصوصی مضمون لکھنے کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ہم نے غالِب کی اس شاعری کی جستجو کی جو انہوں نے صنف ِ نازک کیلئے کی ہے۔ دراصل ان کے داخلی اور خارجی معاملات اس قدر دگرگوں تھے، اس لیے اپنے محبوب کیلئے بھی انہوںنے اپنی ذات کے حوالے سے سخن طرازی کی اور ایسے انداز بیاں سے کی کہ ہمیں ان کے شعر ازبر ہوچکے ہیں۔ دراصل جب ہم کسی شاعر کے کلام کی خصوصیات دیکھتے ہیںتو تین سوالات ہمارے مدِ نظر ہوتے ہیں:

(۱) شاعر نے کیاکہا؟

(۲) کیوںکہا؟

(۳) کس طرح کہا ؟

اگر ہم ان تینوں سوالات کا جواب غالب کے کلام کے حوالے سے دیکھیں تو جوابات کچھ یوںبنتے ہیں۔

(۱)غالب نے زندگی کی عکاسی اور محبت کی ترجمانی کی ہے۔ حسن و عشق کی کیفیات اس تفصیل سے بیان کی ہیں کہ شاید ہی کوئی گوشہ ان کی نگاہ سے اوجھل رہا ہو، تو یہ بھی لازمی امر ہے کہ وہ وجودِ زن سے کیسے صرف ِ نظر کرسکتے تھے۔ انھوںنے واردات قلبی کے علاوہ حقائق و معارف بھی بیان کیے ہیں اور حیات و کائنات کے مسائل پر بھی سخن طرازی کی ہے۔ تخیل کی تربیت اور روح کی بالیدگی کا سامان مہیا کیا ہے۔

(۲) ملکہ شاعری خود قدرت نے انہیںعطا کیا تھا۔ وہ شاعرانہ دل و دماغ لےکر آئے تھے۔ انہوں نے اخلاقاً یا رسماً سخن طرازی نہیں کی بلکہ شاعری ان کی جبلت کا حصہ تھی ۔

(۳) اس سوال کا جواب مشکل بھی ہے اور آسان بھی، اور جو غالب کا انداز بیاںسمجھتاہے، وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ غالب نے کس طرح کہا اور جو نہیںجانتا ان کو سمجھانے کیلئےصفحات کے صفحات سیاہ کرنے پڑجائیں گے۔

اب بات کرتے ہیں غالب ؔ کی اس شاعری کی، جوانہوں نے وجودِ زن کی مدح سرائی میںکی ہے، اس کا بھی اپنا ہی لطف ہے، جیسے کہ

جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں

خیاباں خیاباںارم دیکھتے ہیں

اس شعر میں غالب کہتے ہیںکہ اے محبوب!ہم جس جگہ تیرے قدموں کے نشان دیکھتے ہیں تو وہاں بہشت کے جلوے بکثرت نظر آتے ہیں، یعنی جہاں وہ قدم رنجہ فرما ہوجائیںوہ جگہ جنت کی مانند سرسبز و شاداب ہو جاتی ہے۔

ایک اور جگہ غالب ؔ فرماتے ہیں

وائے دیوانگی شوق کہ ہر دم مجھ کو

آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراںہونا

مرزاؔ نے اس شعر میں جذبۂ جنوں کی شدت کا نقشہ کھینچا ہے کہ جب وہ جذبہ ٔ عشق سے بے اختیار ہو کر باربار کوئے جاناں کی طرف جاتے ہیںتو یہ دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ محبوب تک رسائی نا ممکن ہے، تو حیران ہو کر خود سے سوال کرتے ہیںکہ آخر وہ ادھر آئے ہی کیوں؟

ہجرو وصال کے اسیخیال کو غالبؔ ایک اور جگہ بیان کرتے ہیںکہ

یہ جو ہم ہجر میںدیوارودرکو دیکھتے ہیں

کبھی صبا ،کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں

غالب کہتے ہیںکہ جو فراقِ یار میں کبھی دیوار کی طرف دیکھتے ہیںاور دروازے پر نظریںجمائے رکھتے ہیںتو اسی لئے منتظر رہتے ہیںکہ شایددیوار کی طرف سے ہوا اور دروازے کی طرف سے قاصد اس کا پیغام لے کر آئے ۔

اسی غزل کے دوسرے شعر میں جب ان کی امید برآتی ہےتو غالب ؔ حیران ہو کرکہتے ہیںکہ

وہ آئیںگھر میںہمارے ، خدا کی قدرت ہے

کبھی ہم ان کو، کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

یہ شعر بہت مشہور ہے اور اکثر ہم مہمانوںکی آمد پر برملا کہہ اُٹھتے ہیں۔ اس شعر کی شہرت، اس کی سلاست، روانی ،لطفِ بیاں، انداز بیاں، مضمون آفرینی اور حقیقت نگاری کی وجہ سے ہے، کہ وہ اپنے محبوب کی غیر متوقع آمد اور اپنی بے سروسامانی کا نقشہ ایسے دلکش انداز میںکھینچتے ہیںکہ اس کا اظہار لفظوں میں ناممکن لگتاہے۔ یہ ان اشعارمیںسے ہے جن کی تشریح کرنے سے شعر کی معنویت کا خون ہو جاتاہے۔

شاعری کے بے کراںسمند ر میں غالب ؔ کی وارداتِ قلبی کے اور بھی انداز ہیں، تنگی داماں کی وجہ سے ہم اس مضمون کا اختتام کرتے ہوئے ان کے آخری ایام کے بارے میںبتاتے چلیںکہ اپنی وفات سے چند روز پہلے ان پر بےہوشی طاری ہوگئی تھی۔ وفات سے ایک دن قبل ان کےدماغ پر فالج گرا اور اسی بے ہوشی کی حالت میںوہ راہی عدم ہوگئے۔