عالمی یومِ محبت

February 24, 2019

ڈاکٹر میمونہ حمزہ

فروری کا مہینہ شروع ہو چکا تھا، جہاں خِزاں رسیدہ شاخوں میں زندگی کی رمق نظر آنے لگی تھی، وہاں انسانوں کے پَیرہن بھی تبدیل ہو رہے تھے۔ ایک بڑی درس گاہ کے مختلف گوشوں میں ’’عالَمی یوم ِ محبت‘‘ کو بھر پور طریقے سے منانےکی تیّاریوں کے چرچے ہو رہے تھے۔یہ ایک ایسا پروگرام تھا،جس کے بارے میں خیال تھا کہ جامعہ کی انتظامیہ تک اس کی خبر نہ ہی پہنچےتو اچھا ہوگا، ورنہ کئی ’’فرسُودہ ‘‘خیالات کے حامل اساتذہ اور ذمے داران، خواہ مخواہ رنگ میں بھنگ ڈال دیتے۔ویسے یہ بھی کیا حسین اتفاق تھا کہ اس مرتبہ ویلنٹائن ڈے، ایسے دن آیا ، جب اِدارے میں طلبہ کا ’’کلرز ڈے‘‘ تھا، یعنی وہ دِن جب طلبہ یونی فارم نہیں بلکہ کسی بھی رنگ کا لباس زیبِ تَن کر سکتے تھے۔ لہٰذا دِن کی مناسبت سے ’’سُرخ رنگ‘‘، ڈریس کوڈ ٹھہرا۔

چودہ فروری کوجب طلبہ جامعہ میں داخل ہوئے تو ہر سُو ،سُرخ رنگوں کی بہار تھی۔اساتذہ ، نوجوانوں کو دیکھ کر حیران تھے کہ انہیں ہوا کیا ہے۔چند سنجیدہ طبع پروفیسرز نے توببانگِ دہل، اس وَیلنٹائن ڈے پر لعنت ملامت کی اور بچّوں کو سمجھایا کہ یہ بے ہود گی ، ہمارے مذہب کا حصّہ ہے اور نہ ہماری روایات کا ۔ لیکچر ختم ہوا توکچھ طلبہ نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے سُرخ پھول مسل کر کوڑےدان میں پھینک دئیے اور جن پر اثر نہیں ہوا، انہوں نے استاد صاحب کو بوڑھی روح اور دقیانوسی سوچ کا حامل قرار دے کر کینٹین اور گارڈن کی راہ لی۔اگلے چند گھنٹےدرس گاہ میں، تحائف دینے اور وصول کرنے کا سلسلہ جاری رہا، چاکلیٹس کھائی گئیں، کیک کاٹے گئے،کہیں حیا کا قتل ہوا، کہیں پاکیزہ نگاہوں کا۔تاہم، جہاں فضولیات و لغویات کا طُوفان بپا تھا، وہیں چھٹّی کے وقت لائبریری سے چند سہیلیاں باہر نکلیں، وہ لڑکیاں بھی اِسی ماڈرن نسل کی نمایندہ تھیں، مگر انہوں نے اپنی سوچ پر شیطانیت کو غالب نہیں آنے دیا۔وہ نہ اللہ کی باغی تھیں، نہ اپنے والدین اور خاندان کی، اس درس گاہ میں انہیں تعلیم حاصل کرنے بھیجا گیا تھا اور وہ اُسی مقصد کو حاصل کرنے میں یَک سُو تھیں۔ اُنہوں نے فارغ وقت کا بہترین استعمال کیا تھا، کئی مشکل موضوعات مل کر سمجھ لیے تھے، جب تک ’’لَوبرڈز‘‘گروہ سرگرم ِ عمل رہا، وہ ان سب سے الگ اپنے کام میں مگن رہیں، مطلع صاف ہوتے ہی ،اُنہوں نے اپنی کتابیں سمیٹیں، اور لائبریری سے باہر آگئیں۔ان کے چہروں پر اطمینان تھا، وہ پیکر ِحیا تھیں، اُن کےچہرے پر حیا کی لالی تھی۔ وہ لڑکیاں بھی ہماری نسلِ نو کی نمایندگی کر رہی تھیں، جو اپنے والدین کی عزّت کو سرِ راہ، تعلیمی اِداروں یا ریستورانوں میں داؤپر نہیں لگاتیں ، جو اپنے خاندان کا غرور ہو تی ہیں۔14 فروری کاسورج غروب ہوتے ہوئے ،سارے اُفق پر لالی بکھیر رہا تھا،مگر آج اُس کی لالی میں ایک خاص قِسم کی اُداسی تھی، کیوں کہ وہ ، اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے مُلک میں بے حیائی و بے ہودگی کے کئی واقعات کا گواہ بھی تھا۔