بھارت کا جارحانہ رویہ اور پاکستان کا نپا تلا جواب

February 23, 2019

پاک فوج کو بھارت کی کسی بھی حرکت کا منہ توڑ جواب دیئے جانے کا اختیار دینا اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستان اپنے تحفظ و سالمیت کی بدرجہ اتم صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ فیصلہ وزیر اعظم کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکا نے ملک کی اندرونی و سرحدی سیکورٹی ، جیو اسٹرٹیجک اور پلوامہ واقعے کے بعد کی صورتحال پر بھی غور کیا ۔ قومی سلامتی کمیٹی نے پلوامہ حملے پر بھارتی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ریاست پاکستان کسی بھی طور اس واقعے میں ملوث نہیں، ساتھ ہی وزیر اعظم نے مسلح افواج کو یہ اجازت دی کہ بھارت کی جانب سے کسی بھی جارحیت یا مہم جوئی کا جامع اور فیصلہ کن جواب دیا جائے۔ عسکری قیادت نے قرار دیا کہ حملہ مقامی سطح پر پلان ہوا، بھارت کو تحقیقات کیلئے مخلصانہ پیشکش کی مثبت جواب کی توقع ہے۔ عالمی برادری اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرائے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ریاست عوام کے تحفظ کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے، وزارتِ داخلہ اور سیکورٹی ادارے فوری طور پر ایکشن تیز کریں ہمیں معاشرے سے انتہاپسندی اور عسکریت پسندی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے۔ دریں اثنا وزارتِ داخلہ نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت حافظ سعید کی تنظیم فلاح انسانیت فائونڈیشن کے اکائونٹس منجمد اور دفاتر سیل کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے نیشنل ایکشن پلان کے تحت بڑے پیمانے پر آپریشنز کا عندیہ دیا ۔ 14فروری کو ہونے والے واقعہ پلوامہ کو 8دن گزرنے کے باوجود بھارت کی طرف سے کوئی ثبوت سامنے نہیں لایا جا سکا کہ مذکورہ حملے میں پاکستان کسی بھی طریقے سے ملوث تھا۔ حملہ آور عادل کی کہانی بھی سامنے آ چکی کہ وہ کیونکر اس انتہائی اقدام پر تیار ہوا۔ گندی باغ کے رہائشی عادل کے بارے میں حاصل ہونے والی معلومات یہ ثابت کرنے کو کافی تھیں کہ بھارت کشمیر میں جو کچھ کر رہا ہے، یہ اس کا ردعمل ہے لہٰذا بجائے اس کے کہ واقعے کی تحقیقات کی جاتیں، نریندر حکومت نے اپنی سیاست کی ڈوبتی نیا کو بچانے کے لئے پروپیگنڈے کا طوفان برپا کر دیا، مودی نے تو یہ بیان بھی داغ دیا کہ ’’ہم نے فورسز کو کھلی چھوٹ دیدی ہے، ہمارے جوان فیصلہ کریں گے کہ کب، کہاں اور کیسے دہشت گرد حملہ آوروں کو سزا دی جائے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی راجستھان میں پاکستانی سرحد کے قریب وسیع پیمانے پر جنگی مشقوں نے حالات کی کشیدگی میں مزید اضافہ کر دیا۔ پاکستان نے ان تمام باتوں کے باوجود تحمل و برداشت سے کام لیا اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر بھارت کے پاس کوئی قابل اعتماد ثبوت ہے تو سامنے لائے پاکستان تحقیقات اور معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں مکمل تعاون کرے گا۔ وزیر اعظم پاکستان نے اپنے پالیسی بیان میں کہا کہ اپنی ہی اہم کانفرنس کو سبوتاژ کرنے کے لئے پلوامہ جیسے اقدام کی توقع کسی احمق سے ہی کی جاسکتی ہے، ایسے واقعے سے پاکستان کو کیا فائدہ؟ وزیر اعظم نے اس بیان میں ایک حقیقت افروز بات یہ کی کہ جنگ شروع کرنا انسان کے ہاتھ میں ہے ختم کرنا اس کے ہاتھ میں نہیں، ہر جنگ کا فیصلہ ہمیشہ مذاکرات سے ہوتا ہے، مثال افغانستان ہے۔ افسوس کہ یہ حکمت آمیز باتیں بھارت کی عقل میں نہ آئیں یا شاید جان بوجھ کر فراموش کر دی گئیں کہ سیاسی کامیابیاں سمیٹی جا سکیں۔ بھارتی حکومت کے ہیجان انگیز طرز عمل نے پورے بھارت میں ’’بدلہ لو‘‘ کی لہر چلا دی۔ ان تمام واقعات کے بعد پاکستان کے لئے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ بھارت کو اس کی حد میں رکھنے کے اقدامات کرے چنانچہ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا، جس میں پاک فوج کو اختیار تو دے دیا گیا تاہم یہ امید بھی قائم رکھی گئی کہ بھارت تحقیقات کے سلسلے میں پاکستان کی پیشکش کا مثبت جواب دے گا۔ بھارتی حکومت کی سیاسی مفادات کے لئے انتہا پسندی کو ہوا دینے کی پالیسی اپنی جگہ ۔مگر جنگ سے گریز ہی سب کیلئے بہتر ہے۔ قبل ازیں لڑی گئی جنگوں کا اختتام مذاکرات پر ہوا تو کیا بہتر نہیں کہ یہ خونیں کھیل کھیلنے کی بجائے مذاکرات ہی کی راہ اپنا لی جائے، یہ پاکستان کی امن پسندی ہے ورنہ بھارت جنگی شوق پورا کر کے دیکھ لئے اسے پتہ چل جائے گا کہ جنگ ہوتی کیا ہے۔