ٹماٹروں پر تھوبڑا سجا

February 24, 2019

حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
بھلا ہو واٹس ایپ کا کہ فری کا فون ایسے آتا ہے جیسے ٹماٹروں کا من و سلویٰ آیا ہو۔ اس واٹس ایپ کی فری بات چیت نے پرانے سے پرانے رشتے دار بھی جان کے برابر کردیئے ہم جیسے مصروف بھی قریب و دور کے رشتے داروں سے یکساں محبت کا ثبوت دیتے ہوئے ان کی طویل و مختصر بات چیت سنتے ہیں۔ گذشتہ و حالیہ ملکی معاملات پر بحث و مباحثہ بھی ہوتا ہے۔ آج کل میری پرانی بودو باش اور متروکہ اردو رانگڑی زبان میں بولنے والی گولیمار کی رہائشی دور کی ممانی سے خوب بات چیت چل رہی ہے۔ وقت بے وقت فون کرکے مجھے ٹماٹروں کی قلت سے متعلق آگاہ کرتی ہیں میں نا گواری دکھائوں تو کہتی ہیں کہ ’’ہاں جانو ہوں تو کونسے ملک رہ وے ہے جہاں ٹماٹروں کا مسئلہ نہ ہوئے ہے‘‘۔ پھر وہ کہتیں کہ ’’ہاں تم نے کونسا بریانی، کوفتے قورمے بنانے ہیں جو ٹماٹروں کی قلت کاہو تم سو بس سلاد میں ہی ٹماٹر کھائو ہو‘‘۔ جب سے بھارت کے ٹماٹر کی خبریں زبان زد عام ہوئیں تب سے نیند اڑی ہوئی ہے ممانی کی۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں ممانی کو ٹماٹر کتنے عزیز ہیں ہم جب کبھی ماضی قریب میں ان کے گھر گئے تو اچھے اچھے کھانے تو کھائے ہیں مگر بھرپور ٹماٹروں کے ساتھ ہم نے کئی مرتبہ انہیں دیکھا کہ باقی سبزیوں کی نسبت وہ ٹماٹروں کو خاص اہمیت دیتی ہیں۔ ٹماٹر ایسے دھوتی ہیں جیسے بہت گندے ہیں اور انہیں صابن سے دھوئیں گی۔ ہم نے ایک بار کہا بھی کہ ٹماٹر کا چھلکا چکنا ہوتا ہے جس پر مٹی ٹھیر نہیں سکتی اسے تو ہلکا سادھو لیا کریں مگر ہماری بات چکنا گھڑا ثابت ہوکر ان کے کان سے گزر جاتی وہ ٹماٹر کو ایسے عزیز رکھتی ہیں جیسے گود لیا بچہ ہو۔ ان کا تو بس نہیں چلتا کہ ہر کھانے کے علاوہ ٹماٹروں کے پکوڑے بھی تل کر رکھ دیں یا ہر اس چیز میں بھی ٹماٹر ڈالدیں جس ڈش میں ضرورت بھی نہ ہو۔خیر ممانی کی بات ابھی چل رہی ہے کہ جب تک ان کے ٹماٹروں کا مسئلہ حل نہ ہوگا تب تک وہ ہمیں اپنی پریشانی میں شامل رکھ کرہم سے دنیا بھر کی پریشانیاں ایک طرف اور ٹماٹر کا مسئلہ ایک طرف رہے گا۔ ممانی کو رہ رہ کر بھارتی فیصلے کہ پاکستانی کو ٹماٹر نہیں دیں گے پر شدید غصہ تھا اسی غصے میں ان کی مزے کی گفتگو بھی سننے کو ملی کہنے لگیں یہ’’بھارتی ٹمابھما کا ٹماٹروں پہ تھوبڑا سوج گیا۔ تھوپ لیں اب اپنے تھوبڑے ٹماٹروں سے‘‘۔ وہ غالباً غصے میں تھیں کہ وائٹس ایپ کال ہمیں کر رکھی تھی اور دیکھ رہی تھیں بھارتی چینل جہاں ٹی وی کی اینکر غصے میں پھنکار رہی تھیں ادھر ممانی غصے میں ٹماٹروں سے متعلق ہر لفظ ہی ’’ٹ‘‘ سے شروع اور ختم کررہی تھیں ، بھارتی اینکر بولیں۔’’بھارت نے پاکستان کو ٹماٹر دینا بند کردیئے ہیں‘‘۔ ممانی بولیں تنک کر ’’ ہے نا ٹمپا سی (گول مٹول) اس کے تھوبڑے پر ٹماٹروں کا ٹماخ ہووے گا‘‘۔ ایسے چٹخ چٹخ کر ممانی ٹمابھما (بے اوقات) تھوبڑا سجا ، ٹمپا، ٹماخ وغیرہ کرتی رہیں لگ رہا تھا ٹماٹر کی فکر نے ان کے چہرے پر بھی ٹماخ (سنگھار) کردیا۔ ابھی ممانی ٹمابھما یعنی بے اوقاتے بھارتیوں کو کوس رہی تھیں کہ بھلا اتنے فوجی مرنے پر انہوں نے ٹماٹروں پر ہی منہ سجانا تھا۔ مگر ممانی کو معلوم نہیں کہ وہ ایک ایسا دشمن ہے جو پیٹھ پیچھے وار کرے گا۔ وہ پاکستان آنے والا پانی بھی بند کرسکتا ہے پانی بند کرنے پر ممانی زیادہ سیخ پا نہیں ہوں گی کیونکہ پہلےکون سے کراچی والوں کے گیلن پانی سے لبریز رہتے ہیں کراچی والوں کی قسمت پانی کے معاملے میں ہمیشہ کم رہی ہے۔ ممانی کا طعنہ بھارت کیلئے تھا کہ ٹماٹروں پر اترانے والی قوم کا ستیاناس ہو جائے کہ ہمارے ہی ملک کے بھائیوں نے ٹماٹر جیسے رزق کی خوب بے ادبی کی جیسے یہ ہر معاملے میں خوشحال ہوں حالانکہ گاڑیاں بھر بھر کر ٹماٹر زمین پر پھینکنے والوں نے کوئی کارنامہ انجام نہ دیا ایسے ایسے جذباتی لوگ ہمارے ملک میں بہت ہیں جو سرحدوں پر لڑنے سے ڈرتے ہیں مگر ہلکے پھلکے قومیت پر لگتے تیر انہیں جذبات میں خوب اندھا کردیتے ہیں۔ پاکستانی قوم دماغ سے سوچنے کی بجائے جذبات کی رو میں بہہ جاتی ہے غریب لوگ ٹماٹروں کا ٹھیلہ لگا لیتے تو ٹماٹرمہنگے نہ ہوتے مگر گھر پہنچتے اور ممانی جیسے لوگوں کی فکر بھی کم ہوتی ویسے سوچنے کی بات ہے کہ ہم لوگ ٹما بھما بھارتیوں کی ہر دھمکی پر کبھی جذباتی اور کبھی فکر مند ہو جاتے ہیں کبھی ان کے ڈرامے اور فلمیں بند ہونے پر کبھی تجارتی اشیاء کی روک تھام پر بس ہم نے صرف ہر حال میں جذباتی ہونا سیکھا ہے۔ تقسیم پاک و ہند کے بعد البتہ سبق ہم نے کوئی نہ سیکھا کہ جذباتی مردہ باد کے نعروں کے علاوہ تکبیر کے نعرے بلند کرکے شکر ادا کریں، نفرت کے جذبات دکھانے سے بہتر ہے دعائے خیر کریں۔ قوم نے کبھی پسی ہوئی قوم کیلئے دعا نہ کی کبھی سچے جذبات رکھ کر کشمیریوں، فلسطینیوں کا یادوسرے مظلوموں کا ساتھ نہ دیا۔ ٹماٹر کی فکر ممانی کو ہوگئی مگر خون میں رنگے کشمیریوں کیلئے انہوں نے دل و جذبات و رقت سے اتنی دعا نہ کی ہوگی نہ ہی فکر مند ہوئی ہوں گی۔سروں پر کفن باندھے رکھنے والے کشمیری مجاہد، پتھر و گولیاں کھاتے بزرگ، بچے، عورتیں اور جوان ، کتنی تصویریں ٹماٹروں کی تعداد سے زیادہ کشمیریوں کی شہادت کی ہیں یعنی پوری داستان ہی رنج و غم سے بھری ہے پر ہم خال خال ہی ان پر دھیان دیتے ہیں جب تک ہماری آنکھوں کے سامنے خون میں ڈوبی لاشیں نہ آئیں تب تک ہم دل افسردہ نہیں کرتے۔ مائیں سکارف اوڑھ کر پیاروں کے جانے کا ماتم کرتی ہیں تو تصویر ہے،بھارتی فوجیوں کے پائوں میں دوپٹے رکھ کر جوان خواتین عزت بچانے کی التجا کرتی ہیں تو تصویر ہے، ان کے فوجی بچیوں کی عزت ان کے دوپٹے کھینچ کر تار تار کریں تو صرف تصویر ہے، بچوں کو چھرے مار کر لہو لہان کریں اندھا کریں تو تصویر ہے، جوانوں کا خون کرکے لاشیں بے حرمتی کیلئے پھینک دیں تو تصویر ہے بس ارے دیکھا جائے تو گئے گزرے ہم ہیں، ہم اپنی اصلاح کرلیں تو ہم خود ہی رہبر و رہنما ہو سکتے ہیں اپنے رہبرو رہنما ہونے کیلئے نیک نیتی اور ثابت قدمی کی ضرورت ہوتی ہے جذباتی نعروں کی نہیں۔