ایک رومن غلام کی زندگی

March 03, 2019

فلسفیوں میں مجھے stoicبہت پسند ہیں، اس لفظ کا اردو ترجمہ رواقی ہے، اب رواقی کا کیا ترجمہ ہے، یہ مجھے معلوم نہیں۔ Stoicفلسفیوں کی ایک قسم ہے، جس کی بنیاد ان کے باوا آدم زینو نے رکھی تھی، آج سے اڑھائی ہزار سال پہلے پیدا ہونے والے اس فلسفی کی وجہ شہرت وہ معمے بنے جنہیں پیش کر کے وہ لوگوں کے ذہن کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کرتا تھا۔ Stoicفلسفے کو محض وقت گزاری کے لیے نہیں پڑھتے تھے بلکہ ان کا ماننا تھا کہ فلسفہ زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتا ہے اور زندگی بھی ایسی جو سادہ اور پُرمسرت ہو۔ آفاقی قوانین کے تابع ہو اور دنیاوی نفع نقصان اور موت کے خوف سے ماورا ہو کر ایک آزاد ذہن کے ساتھ گزاری جائے۔ ایسے ہی ایک فلسفی کا نام Epictatusتھا، یہ 55عیسوی میں ترکی میں پیدا ہوا اور پھر وہاں سے بطور غلام روم لایا گیا، اُس کا مالک ایک دولت مند اور طاقتور شخص تھا جو خود روم کے شہنشاہ نیرو کا غلام رہ چکا تھا۔ نیرو کے دورِ اقتدار کے خاتمے کے بعد اُس کے پیشرو نے ایپکٹیٹس کے آقا کو قتل کروا دیا، جس کے نتیجے میں ایپکٹیٹس کو آزادی مل گئی۔ یہ شخص چونکہ شروع سے ہی بلا کا ذہین تھا اس لیے بطور غلام بھی وہ فلسفہ پڑھا کرتا تھا اور اس زمانے کے اساتذہ کے لیکچر بھی سننے جایا کرتا تھا، سو جب اسے آزادی ملی تو وہ ایک مکمل فلسفی بن چکا تھا، تاریخ میں شاید ہی کوئی دوسری ایسی مثال ہو جس میں کسی شخص نے یوں اپنی زندگی میں غلامی سے فلسفی تک کا سفر ایک ہی جست میں مکمل کیا ہو۔ ایپکٹیٹس نے خود کوئی کتاب نہیں لکھی بلکہ اس کے ایک شاگرد نے جس کا نام آریان تھا، نے بعد میں اسکندر اعظم کی آپ بیتی بھی لکھی اور اس کی تعلیمات کو بھی اکٹھا کیا اور آٹھ جلدوں کی شکل میں شائع کروایا، جس میں صرف چار ہم تک پہنچیں، باقی زمانے کی گرد کے نیچے دفن ہو گئیں۔

ایپکٹیٹس کی تعلیمات نہایت دلچسپ ہیں، انہیں پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے زندگی کا بڑے سے بڑا مسئلہ سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں، مستقبل کا خوف ایک بےمعنی چیز ہے اور موت سے نمٹنا بے حد آسان۔ دراصل یہ اتنا حیران کن بھی نہیں کیونکہ اس کی اپنی زندگی غلامی میں شروع ہوئی تھی اور غلامی بھی ایسی جس سے نکلنے کی کوئی راہ بھی نہیں تھی مگر اس کے باوجود اس نے بطور غلام اپنی زندگی کو بغیر کسی شکایت کے قبول کر لیا اور کسی دوجے کو اپنی تکلیف کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔ ایپکٹیٹس کا کہنا تھا کہ کچھ باتیں ہمارے اختیار میں ہوتی ہیں اور کچھ نہیں، زندگی میں کب کیا ہو جائے کوئی نہیں جانتا، زندگی کا پانسہ پھینکنا کبھی ہمارے بس میں ہوتا ہے اور کبھی نہیں، جب ہم یہ فرق جاننے میں ناکام ہوجاتے کہ کب کوئی بات ہمارے اختیار میں تھی اور کب ہمارے بس سے باہر تو اس کا نتیجہ لامحدود اضطراب، اندیشوں اور وسوسوں کی شکل میں نکلتا ہے، اگر ہم موت، بیماری یاغربت سے نجات پانے کی کوشش کریں تو ہماری پریشانی میں اضافہ ہی ہو گا کیونکہ ان میں سے کچھ بھی، خاص طور سے موت، ہمارے اختیار سے باہر ہے، خوشی صرف تب ہی مل سکتی ہے جب ہم ان چیزوں پر توجہ دیں جو ہمارے بس میں ہیں، سکون فقط اسی صورت میں مل سکتا ہے اگر ہم سادہ زندگی گزاریں، اپنی خواہشات کو محدود رکھیں اور اپنے خیالات کو بکھرنے نہ دیں۔ ایپکٹیٹس کے خیال میں ہمیں کسی بھی واقعے کی تکلیف اس لیے نہیں ہوتی کہ اس کے نتیجے میں ہمیں پریشانی کیوں اٹھانا پڑی بلکہ ہمیں تکلیف اس بات کی ہوتی ہے کہ یہ ہمارے ساتھ ہی کیوں ہوا۔ اس کا حل یہی ہے کہ یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ خدا کے ہر کام میں کوئی حکمت پوشیدہ ہے اور ہم چونکہ ایک محدود علم رکھتے ہیں، اس لیے کبھی بھی ان تمام وجوہات کو نہیں جان پائیں گے جو کسی ناگہانی واقعے کا سبب بنتی ہیں۔ نکولس طالب نے ’دی بلیک سوان‘ میں بھی تقریباً ایسی ہی بات کی تھی کہ دنیا میں بیک وقت لامحدود چیزیں اور واقعات رونما ہو رہے ہوتے ہیں، ہمارے پاس کوئی ایسا علم نہیں جو ہمیں تمام واقعات اور تبدیلیوں اور انسانی رویوں کے بارے میں لمحہ بہ لمحہ آگاہی دے سکے یا جس کی بنیاد پر کسی بھی واقعے کی درست پیش بندی کی جا سکے، probabilityتھیوری بھی ایسے واقعات کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتی لہٰذا اس کا ایک حل تو یہی ہے کہ وہ سب کچھ جاننے کی کوشش کریں جو آپ کے علم میں نہیں مگر آپ سے متعلق ہے اور دوسرا حل وہی جو ایپکٹیٹس نے بتایا کہ جو بات بس میں نہ ہو اس پر کڑھ کر بدبختی میں مزید اضافہ نہ کیا جائے۔ اپنے نظریے کی حمایت میں ایپکٹیٹس ایک شخص کا واقعہ سناتا ہے جس کے خلاف رومن سینیٹ نے ایک مقدمہ شروع کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں اسے پھانسی یا جلا وطنی کی سزا سنائی جا سکتی ہے، مگر اس کے باوجود اس شخص کے معمولات میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور وہ روزانہ ورزش کرتا ہے، غسل کرتا ہے، بالآخر اس کے مقدمے کا فیصلہ سنا دیا جاتا ہے جس میں اسے قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے، اسے جب یہ بات بتائی جاتی ہے تو وہ نہایت پُرسکون انداز میں پوچھتا ہے کہ کیا اسے پھانسی دی جائے گی یا جلا وطن کیا جائے گا، جواب ملتا ہے کہ جلا وطنی کی سزا ہے، یہ سنتے ہی وہ اطمینان سے اپنی اگلی تیاری میں مصروف ہو جاتا ہے۔ ایپکٹیٹس نے ایک سو پینتیس برس کی عمر پائی، شادی کی اور نہ بچے پیدا کیے۔ اس لیے زندگی اور موت کے بارے میں اس کے خیالات ایک عام آدمی کو کافی عجیب لگتے ہیں، مثلاً زندگی کا سب سے بڑا خوف اپنے کسی پیارے کی جدائی ہے جیسے کسی ماں سے اس کا بچہ چھن جانا یا کسی بیوی سے اس کا شوہر، اس بارے میں ایپکٹیٹس مشورہ دیتا ہے کہ جب بھی تم اپنے بچے کو پیار کرو تو یہ سوچ کر کرو کہ یہ ایک انسان ہے جس سے تم پیار کر رہے ہو تاکہ ناگہانی طور پر اگر یہ تم سے چھن بھی جائے تو تمہاری زندگی زیادہ پریشان کن نہ ہو۔

مجھے ایپکٹیٹس کے تمام نظریات سے اتفاق نہیں ہے، مثلاً اس کا ماننا تھا کہ ہر شخص کو زندگی میں ایک مخصوص کردار ادا کرنا ہوتا ہے، یہ کردار غریب شخص کا بھی ہو سکتا ہے، اپاہج کا بھی اور کسی افسر کا بھی، ہمارا کام اس کردار کو بخوبی نبھانا ہے کیونکہ یہ کردار ہمارے مقدر میں لکھا ہوا ملا ہے، اگر ہم اس سے لڑنے کی کوشش کریں گے کہ ہمیں یہ کردار کیوں دیا گیا تو ہم اپنی تکالیف میں اضافہ ہی کریں گے، لڑ نہیں سکیں گے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ غریب پیدا ہونے والا غریب کے کردار میں ہی فوت ہو جائے، ایسی ان گنت مثالیں تاریخ میں بھری پڑی ہیں، خود ایپکٹیٹس کی اپنی زندگی اس کی مثال ہے، کردار اسے غلام کا ملا مگر فوت وہ ایک فلسفی بن کر ہوا۔ اسی طرح اپنے کسی قریبی عزیز کی ناگہانی موت کی صورت میں زندگی کو نارمل رکھنے کی جو ٹپ ایپکٹیٹس نے دی وہ خاصی سفاک ہے، آپ ایسے زندگی نہیں گزار سکتے کہ اپنے بچے کو یوں چومیں جیسے وہ بھی اسی طرح انسان ہے جیسے باقی ہیں، آپ کا لخت جگر نہیں۔ قطع نظر ان باتوں سے ایپکٹیٹس کی زندگی کسی رول ماڈل سے کم نہیں، ایک ایسا شخص جو رومن دور میں غلام تھا اور جب اسے آزادی بھی ملی تو چونتیس برس کی عمر میں جلا وطن کر دیا گیا، اس کے بارے میں کون سوچ سکتا تھا کہ وہ ایک ایسا فلسفی بنے گا جس کے شاگردوں میں نامور تاریخ دان اور روم کی اشرافیہ شامل ہوں گے۔ جو لوگ آج کے زمانے میں زندگی کے اندیکھے خوف اور وسوسوں کا شکار رہتے ہیں وہ صرف یہ سوچ کر ڈپریشن سے نکل سکتے ہیں کہ اگر رومن سلطنت کا ایک غلام آسودہ زندگی گزار سکتا ہے تو وہ کیوں نہیں، کیا ان کی زندگی رومن غلاموں سے بھی بد تر ہے؟