قاضی حسین احمد ۔حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا!

January 07, 2013

پروفیسر غفور احمد کے بعد قاضی حسین احمد کا انتقال جماعت اسلامی کے علاوہ جمہوریت پسندوں کیلئے بھی ایک سانحہ کی حیثیت رکھتا ہے کہ دینی جماعتوں میں جماعت اسلامی وہ ممتاز اور نمایاں جماعت ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کیلئے جمہوری راستہ اپنانے پر یقین رکھتی ہے ۔ مجھے قاضی صاحب مرحوم و مغفور سے متعدد ملاقاتوں کا شرف حاصل رہا ہے ۔ وہ ایک کشادہ دل انسان تھے اپنے نظریات میں پختہ ہونے کے باوجود جماعت سے اختلاف رکھنے والوں سے بھی ان کے میل جول میں رواداری اور محبت کا عنصر نمایاں ہوتا تھا ۔ اس کی ایک مثال احمد فراز کی صورت میں بھی موجود ہے ، احمد فراز اور قاضی صاحب کے نظریات میں بعدالمشرقین تھا مگر یہ دونوں ایک دوسرے کیلئے بہت احترام کے جذبات رکھتے تھے اور یوں یہ کشادہ دلی قاضی صاحب کے علاوہ احمد فراز کی شخصیت کا بھی حصہ تھی ،قاضی صاحب کو احمد فراز کی شاعری اچھی لگتی تھی اور احمد فراز کو ان کی یہ کشادہ دلی پسند تھی برادرم رؤف طاہر جب روزنامہ ”جسارت “ کے بیورو چیف تھے تو ”جسارت“ اگرچہ جماعت اسلامی کا ترجمان اخبار تھا لیکن رؤف طاہر قاضی صاحب کی بعض پالیسیوں کے ناقد تھے ، اس کے باوجود قاضی صاحب نے کبھی ان کو ”جسارت “ سے نکالنے کی کوشش نہیں کی بعد میں جب رؤف طاہر نے محسوس کیا کہ وہ جماعت کے ساتھ نہیں چل سکتے تو انہوں نے ازخود اخبار سے علیحدگی اختیار کرلی ۔ قاضی حسین احمد کی ایک ادا جو مجھے بطور خاص پسند تھی وہ ان کا علم و ادب سے گہرا رشتہ تھا ان دنوں سیاست دانوں کا الا ماشاء اللہ ادب سے نہ صرف یہ کہ کوئی رشتہ نہیں رہا بلکہ وہ اسے بیکاروں کا مشغلہ سمجھتے ہیں چنانچہ آپ دیکھ لیں ہمارے سیاست دان معاشرے کے تقریباً تمام طبقوں کو ”کیٹر “ (CATER)کرتے رہیں لیکن ادب ان کی ترجیحات میں کہیں نہیں آتا جبکہ قاضی صاحب اقبال، فیض اور فراز کی شاعری کے بہت دلدادہ تھے ۔ اقبال تو ان کا محبوب تھا انہیں اقبال کے کلام کا بہت بڑا حصہ زبانی یاد تھا ، قاضی صاحب میرے کالموں کے بھی باقاعدہ قاری تھے ان سے آخری ملاقات چند ماہ قبل ہوئی تو انہوں نے بہت شفقت سے میرا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں سمیٹ کر مسکراتے ہوئے کہا ”آپ بہت شرارتی کالم لکھتے ہیں “ مجھے یہ بات ایک بار ان کی صاحبزادی راحیلہ سمیع قاضی نے بھی بتائی تھی کہ آپ کی چٹکیوں کے باوجود وہ آپ کے کالم کے بہت شیدائی ہیں، میں یہاں اپنا حوالہ درمیان میں لانے پر معذرت خواہ ہوں لیکن یہ بتانا مقصود تھا کہ وہ جماعت اسلامی سے اختلافات رکھنے والوں سے بھی محبت کا برتاؤں کرتے تھے اور اختلاف کو ذاتی دشمنی میں تبدیل نہیں ہونے دیتے تھے ۔ ایک دفعہ انہوں نے لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں دانشوروں کو چائے پر مدعو کیا اور فنون لطیفہ کے حوالے سے جماعت کی پالیسی پر روشنی ڈالی جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ ان کی نظروں میں فنون لطیفہ کی بہرحال ایک اہمیت ہے ۔ ان کی بریفنگ کے اختتام پرمیں نے انہیں مخاطب کرکے کہا ”کیا جماعت اسلامی برسراقتدار آنے پر رقص و موسیقی ، مجسمہ سازی اور دیگر فنون لطیفہ کی اجازت دے گی ؟“ اس پر قاضی صاحب کے ساتھ بیٹھے برادرم لیاقت بلوچ نے میرے برابر میں بیٹھے ہوئے انور سجاد کی طرف اشارہ کرکے ہنستے ہوئے کہا ” قاسمی صاحب ،کیا آپ یہ سوال انور سجاد صاحب کے ”بی ہاف “ (BEHALF)پر پوچھ رہے ہیں ؟“ جس پر ایک قہقہہ پڑا اور سوال اس قہقہے میں کہیں گم ہو گیا ۔
تاہم قاضی صاحب جماعت کی پالیسیوں میں تبدیلی بہرحال لائے تھے حتی کہ اس وقت موسیقی بھی دبے پاؤں جماعت میں داخل ہو گئی تھی جب انتخابی جلسوں میں قاضی صاحب کی آمد پر
آجا قاضی تینوں اکھیاں اڈیک دیاں
والا خیر مقدمی گیت آواز و ساز کے ساتھ سنائی دیتا تھا قاضی صاحب نے ظلم کے خلاف تحریک چلانے کے لئے ”پاسبان“ کے نام سے ایک تنظیم بنائی جس کے پہلے صدر محمد علی درانی تھے یہ تنظیم جماعت کے سامنے نہیں صرف قاضی صاحب کے سامنے جوابدہ تھی ، بعد میں یہ تنظیم ختم کر دی گی اور اس کی جگہ ”شباب ملی “کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ یہ تنظیمی جماعت کی نیک نامی کا بہرحال باعث نہ بن سکیں ۔ قاضی صاحب نے عام لوگوں کو جماعت کا ممبر بنانے کا تجربہ بھی کیا چنانچہ ایک موقع پر کہا گیا کہ 46لاکھ لوگ جماعت کے ممبر بن گئے ہیں اور اس کے پہلے ممبر میجر رشید وڑائچ تھے قاضی صاحب نے ”ظالمو قاضی آ رہا ہے “ والی کمپین کے ذریعے بھی جماعت کو عوامی بنانے کی کوشش کی لیکن یہ سب تجربے ناکام رہے بلکہ بعض لوگوں کے نزدیک اس سے جماعت کے تشخص کو نقصان پہنچا ،
ان تجربوں کی ناکامی کے علاوہ میاں نواز شریف سے ان کی محاذ آرائی بھی جماعت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوئی کیونکہ جماعت سے ہمدردی رکھنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس پالیسی کے حق میں نہیں تھی تاہم اس امر میں رتی بھر شبہ نہیں کہ قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور ایک اسلامی انقلابی تھے اور پاکستان میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کی ان کی خواہش جنون کی سرحدوں کو چھوتی نظر آتی تھی مگر جماعت کے نظم کی بیڑیاں ان کے پاؤں میں پڑی تھیں قاضی صاحب جماعت کے رہنماؤں میں واحد شخصیت تھے جو پاکستانی طالبان کے قتال کو جہاد نہیں سمجھتے تھے البتہ افغانستان میں امریکہ کے خلاف مزاحمت کاروں کو وہ مجاہدین میں شمار کرتے تھے ۔ جماعت اسلامی پروفیسر غفور احمد کے بعد قاضی حسین احمد کی وفات کی صورت میں ایک اور بڑے آدمی اور بڑے رہنماء سے محروم ہو گئی ہے ۔
اناللہ وانا الیہ راجعون